کیا ریاستی ادارے اپنے حکمت عملی تبدیل کرر ہے ہیں

لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کی درخواست ضمانت منظورکر کےان کی رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف بھی اپنی علالت کی وجہ سے ضمانت پر رہائی پا چکے ہیں۔ میاں شہباز شریف اور کیپٹن ر صفدر بھی جیل سے باہر آ چکے ہیں جبکہ شاہد خاقان عباسی بھی جیل سے باہر آ کر ایک کلینک میں زیر علاج ہیں۔ قبل ازیں خواجہ سعد رفیق کو بھی ایک قریبی رشتے دار کی وفات پر پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔

کیا مسلم لیگ نون کے حالات میں آنے والی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی موسم بدل رہا ہے؟ معروف دانشور اور کالم نگار قیوم نظامی کا خیال ہے کہ ملک کے سنگین ہوتے ہوئے معاشی بحران کے پیش نظر ریاستی اداروں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ختم کیے بغیر معاشی استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا، ڈیڑھ سال تک کرپشن کے خلاف کی جانے والی کوششوں کے بھی مطلوبہ نتائج نہیں نکل سکے، اس کے علاوہ اسلام آباد کے دھرنے نے بھی حکومت اور ریاستی اداروں پر دباو بڑھا دیا ہے اور ہم ایسی ایسی باتیں بھی سن رہے ہیں، جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا، اس صورتحال میں لگتا یہی ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومت نے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر لی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان حکومتی وزیروں کی طرف سے داغے جانے والے بیانات کے برعکس موجودہ حکومت کے سینئر رہنما بھی نئی حقیقتوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔

پاکستان کے سینئر تجزیہ نگار سجاد میر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی ملک کے موسم کو بدلنے میں بہت دیر لگے گی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ فاٹا، کشمیر اور افغانستان کی صورتحال اور ملک کے گھمبیر ہوتے ہوئے معاشی بحران میں تنازعات سے اوپر اٹھ کر مستقبل کے حوالے سے غور و فکر شروع ہوا ہے، نواز شریف کی بیماری کی شدت ایک حقیقت ہے اور اس بیماری کے ممکنہ اثرات نے با اثر طبقوں میں ہل چل سی پیدا کر دی ہے۔ اس کے علاوہ یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے عوام کا رد عمل اگر اپوزیشن کے احتجاج سے جا ملا تو اس کے نتائج بہت شدید ہوں گے۔ اسی سوچ کی وجہ سے توقع کی جا رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی اور دوسرے سیاسی رہنما بھی کچھ نہ کچھ ریلیف حاصل کر سکیں گے ‘‘۔

مریم نواز کی ضمانت کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان میں مسلم لیگ نون اور ملک کے طاقت ور حلقوں کے درمیان کسی مبینہ ڈیل کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس فیصلے کو جمعے کے روز سنایا جا ئے گا، بعدازاں اس فیصلے کو پیر کے روز صبح دس بجے سنائے جانے کی امید تھی لیکن یہ فیصلہ پیر کے روز دو بجے کے بعد سنایا گیا۔ اس فیصلے کے اعلان سے پہلے پاکستان مسلم لیگ نون نے ایک اعلی سطحی اجلاس کے بعد اعلان کیا تھا کہ مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف مولانا فضل الرحمان کی طرف سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔

اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے تجزیہ نگار سید طلعت حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کیس کی مختلف سماعتوں کے دوران اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ عدالت مریم نواز کے وکلا کے دلائل میں وزن محسوس کر رہی ہے۔ لیکن ان کے بقول وہ بحثیت پاکستانی شہری محفوظ کئے گئے فیصلوں پر زیادہ خوشی محسوس نہیں کرتے۔ ان کے مطابق مریم نواز کے فیصلے کے محفوظ کئے جانے کے دوران پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کئی اہم واقعات ہوئے، مثال کے طور پر نواز لیگ کا مولانا فضل الرحمان کے دھرنے سے قدرے فاصلہ رکھنا بھی نظر آیا۔

طلعت حسین کے بقول واقعاتی طور پر یہ فیصلہ میرٹ پر سامنے آیا ہے لیکن تجزیاتی طور پر ہمارے پاس معلومات زیادہ نہیں ہیں جن سے ہم نئی صورتحال میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب حاصل کر سکیں، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ شہباز شریف اپوزیشن کی اے پی سی میں نہیں جا رہے،کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ لاہور میں نون لیگی ورکرز آزادی مارچ سے دور رہے، کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ ن لیگ کے لیڈر آہستہ آہستہ باہر آنا شروع ہو گئے ہیں؟‘‘

تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال ظاہر کر رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ پلان ہو رہا ہے۔ سید طلعت حسین کا خیال ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز ایک طرف ہیں اور شہباز شریف اور پارٹی میں ان کے دوست بالکل دوسری طرف کھڑے نظر آ رہے ہیں، میری خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کہ رہنما مقتدر حلقوں اور اہم محکموں کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور گفتگو اس بات پر ہو رہی ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے کیا اور کس طرح کا بندوبست کیا جانا چاہیے‘‘۔

DW

Comments are closed.