شہری عورت دیہاتی مرد سے زیادہ عقل مندہوتی ہے
دیہات میں مرد کھیتی باڑی کرتا ہے یا حجرے اور مسجد میں جاتا ہے اسی طرح دیہاتی خاتون اپنے گھر میں روایتی پابندیوں کی وجہ سے مقید رہتی ہے چنانچہ دونوں کے سماجی اور معاشرتی روابط محدود دائرے کے اندر گھومتے رہتے ہیں ان پابندیوں کے باعث ان کی خفتہ صلاحیتوں کو پنپنے اور اجاگر ہونے کا موقع نہیں ملتا ہے۔
پھر ترقی اور تعلیم کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتی عورت کی سوچ کا زاویہ دیہاتی مرد سے بھی زیادہ تنگ اور محدود ہوتا ہے گھریلو فرائض کی انجام دہی کے سوا اسے کسی اور کام سے سروکار نہیں ہوتا لگے بندھے قواعد و ضوابط اور روایتی پابندیوں نے دیہاتی خاتون کو بڑی حد تک آگے بڑھنے سے روکا ہوا ہے حالانکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے اس کی صحت قابل رشک ہوتی ہے
ہم یہ جانتے ہیں کہ سیکھنے سکھانے کے نت نئے مواقع اور اس حوالے سے مراعات و سہولیات کی فراہمی مرد اور عورت کے شعور کو اجاگر کرتے ہیں اور اس کے ذہن کے خفتہ پہلوؤں کو بھی متحرک کرتے ہیں اگرچہ شہر اور دیہات کے مرد اور خواتین شکل وصورت کے حوالے سے یکساں ہوتے ہیں لیکن ان میں نمایاں فرق سمجھ بوجھ، علم، نئی نئی ایجادات اور معلومات کا ہوتا ہے
شہر میں ریڈیو سے لے کرکیبل اور کمپیوٹر تک کی سہولیات بچوں سے لے کر مرد اور خواتین کو بھی حاصل ہوتی ہیں۔ جدید سائنسی آلات ان کے قلب و ذہن کو وسیع کرتے رہتے ہیں اگر دیہاتی عورت کو اپنے رشتے داروں، زیارتوں اور پیروں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے تو شہری عورت ان کے علاوہ چاردیواری سے باہر بھی قدم رکھ سکتی ہے۔ وہ سکول جاسکتی ہے بلکہ کسی حد تک سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتی ہے اور عصر حاضر میں تو سیاست بھی کرنے لگی ہے ۔
اگر اس کا خاندان پڑھا لکھا ہے ماں باپ اور بہن بھائی اپنے ساتھ بازار سے کتب اور رسائل بھی لاتے ہیں اور گاہے گاہے ملکی وعالمی سیاست اور دیگر امور پر بھی بات چیت کے دور چلتے رہتے ہیں تو یہ تمام ماحول اسے دیہاتی عورت سے عقل اور شعور کے حوالے سے کہیں زیادہ دور اور آگے لے جاتا ہے
یہ حالات اور ماحول شہری عورت کو نہ صرف دیہاتی عورت بلکہ دیہاتی مرد سے بھی زیادہ عقل مند بنادیتا ہے کیونکہ دیہاتی مردعموماً ان پڑھ ہوتا ہے اس کے گھر میں کتاب ہوتی ہے اور نہ ہی اخبار پڑھتا ہے اس کی کل کائنات کھیت اور حجرہ ہوتا ہے دیہات میں ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والے مواقع نہیں ہوتے ہیں چنانچہ صحت مند ، بالغ اور اچھے برے کی تمیز رکھتے ہوئے بھی وہ شہری عورت کا ذہنی لحاظ سے ہم پلہ نہیں ہوتا ہے ۔
اگر ایک دیہہ میں مردجدید سائنسی آلات، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں اور وہ نہ خود دیکھتے اور نہ ہی کسی اور کو دیکھنے دیتے ہیں دنیا میں ہونے والے واقعات سے بے خبر رہتے ہیں تو ان کی محدود دنیا ان کے عقل کے دائرے کو مزید تنگ کردیتی ہے ۔
قرون اولیٰ کا مغربی اور یورپی معاشرہ اس بات کی سچائی کو تقویت دیتا ہے کہ جب تک وہ ہماری طرح طرز معاشرت اور رہن سہن کا حامل تھا تو اس معاشرے کو جاہل، اجڑ اور بے علم سمجھا جاتا تھا لیکن آج مغرب اور یورپ کے دیہاتوں اور شہروں میں تفریق ختم ہوچکی ہے جو سہولیات شہروں کو حاصل ہیں وہی دیہاتوں کو بھی مل رہی ہیں پاکستان میں یہ حال نہیں ہے۔
بہرحال، اب زمین کی طنابیں کھچ گئی ہیں جدید سہولیات رفتہ رفتہ دیہات کو بھی ملنے لگی ہیں اگر حکومت اور این جی اوز نے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات پر بھی توجہ دینا شروع کردی تو وہ زیادہ عرصہ غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ نہیں رہیں گے دیہاتی مرد اور عورت کی خفتہ صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع ملے گا تو اس کا ملک کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
One Comment