لیاقت علی
پاکستان میں ایسے چنیدہ افراد ہمیشہ رہے ہیں جنھوں نے ہمیشہ بھارت سے امن اور برابری کی بنیاد پراچھے ہمسائیگی پرمبنی تعلقات کی نہ صرف وکالت کی بلکہ اس کے لئے مسلسل جدوجہد بھی کی ہے۔ان افراد کو ہماری ریاستی اورحکومتی اشرافیہ نے تضحیک وتذلیل اورجبروتشدد کا نشانہ بنایا اورانھیں بھارت کا ایجنٹ تک قرار دیا۔
اب ہمارے وزیراعظم سرپررومال باندھے گوردوارہ کرتارپور صاحب میں کھڑے ہوکرامن امن پکاررہے ہیں لیکن بھارت کی ہندو قوم پرست قیادت ان کی آواز سنی ان سنی کررہی ہے۔
ہرسیاسی نعرے اورسفارتی پیش رفت کا ایک ٹائم وتا ہے اگربروقت یہ نعرہ اورسفارتی پیش رفت نہ کی جائے تو یہ بے وقت کی راگنی کہلاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارت کو پاکستان سے دوستی کی ازحد ضرورت تھی کیونکہ یہ دوستی اس کی معاشی ترقی کے لئے ان دنوں ازحد ضرورت تھی لیکن ہم تھے کہ کشمیر کے بغیر کسی دوسرے ایشو پر بات کرنے کوتیار نہیں تھے۔ تاشقند معاہدہ کو ہمارے ہاں میز پران حاصلات کو گنوا دینے کا نام دیا گیا جو ہم مبینہ طورپر 1965 کی سترہ روز جنگ میں ہم نے حاصل کئے تھے۔
معاہدہ تاشقند کی مخالفت کرنے والوں نے پھر معاہدہ شملہ کیا لیکن اس پرعمل درآمد بھی تشنہ تکمیل رہا۔ شملہ معاہدہ کرنے والوں کی مخالفت اورمبینہ طور پرسکھوں کی فہرستوں بھارت کو دینے کا الزام لگانے والوں نے اعلان لاہو پر دستحط کئے۔ اعلان لاہور کی مخالف خلائی مخلوق نے جلد ہی باچپائی کو سلامی دی اوراعلان آگرہ پر راضی ہوگئے۔ لیکن ایک دفعہ پرخلائی مخلوق میں موجود اختلافات کی بنا پر اعلان آگرہ پر دستخط نہ ہوسکے اورصورت حال جوں کی توں رہ گئی۔
عمران خان نےنواز شریف کو مودی کا یار ٹھہرایا لیکن اب خود مودی کے پیر چھونے کو تیار ہیں لیکن مودی ہے کہ مان کر نہیں دے رہا۔ پاکستان کوشاید یہ بات سمجھ نہیں آرہی یا سمجھنا نہیں چاہتا کہ بھارت کی معیشت کا حجم ہماری معیشت سے کئی گنا بڑا ہے اور وہ زیادہ سےزیادہ ڈیجیٹلائزد ہوچکی ہے اور ہورہی ہے اس نےمعاشی ترقی کے لئے جو سہولتیں پاکستان سے حاصل کرنا تھیں ان کا اس نے متبادل ڈھونڈ لیا ہے۔
اب وہ افغانستان سے تجارت چاہ بہار کے راستے سے کررہا ہے۔ اب وہ ایران سے بہتر تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کامیا ب ہوچکا ہے۔ چین سے تجارتی کا تعلق حجم پاکستان کی نسبت کئی گنا بڑا ہے۔ اب آپ جتنا مرضی کوشش کرلیں مستقبل قریب میں بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ممکن نہیں ہوگا۔
♦