رحمان بونیری
ماضی میں فوج کے نزدیک سمجھے جانے والے اور پاکستان کی روایت پسند معاشرے میں مذہبی اور سیاسی چالوں کے ماہر کھلاڑی مولانا فضل الرحمان کیا سیاسی بغاوت کے راستے پر نکل پڑے ہیں؟
کچھ پاکستانی مبصرین اس سوال کا صریح جواب نفی میں دیتے ہیں مگر کچھ کا یہ بھی ماننا ہے کہ مولانا کو عمران خان کے ساتھ ذاتی سیاسی رقابت نے انہیں اپنی سیاست کی ایک نئی منزل میں داخل کرکے گویا ایک ایسے مورچے میں بٹھا دیا ہے جس سے اترنا خاصا مشکل ہے۔
مگر یہ آخری مورچہ یا آخری حد ہے کیا؟
اس سوال کا جواب مولانا کے ساتھ احتجاج میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل میا ں افتخار حسین کے الفاظ میں مختصراً یوں دیا جاسکتا ہے کہ مولانا اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں۔ مولانا نے خود بھی کئی مرتبہ کہا ہے کہ ان کو بند گلی میں پہنچا دیا گیا ہے۔
مولانا کی اس بات کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ وہ پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں گزشتہ کئی دنوں سے شام کو سیاسی نعروں سے سجے سٹیج پر فاتحانہ انداز میں جلوہ افروز ہوتے ہیں، اپنے عقیدتمند کارکنوں کو مسکراتے ہوئے اور اعتماد سے ہاتھ ہلاکر انکے استقبالی نعروں کا جواب دیتے ہیں اور پھر ایک لمبا خطاب کرتے ہوئے دھمکی دیتے ہیں کہ جب تک عمران خان مستعفی نہیں ہونگے وہ یہاں سے نہیں جائیں گے۔
کیا مولانا اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں گے؟
سیاسی امور کے ماہر اور روزنامہ پاکستان کے مدیر جناب مجیب الرحمان شامی کے مطابق موجودہ سیاسی ماحول میں عمران خان سے استعفی نہیں لیا جاسکتا۔ جناب شامی کے مطابق اسکے دو وجوہات ہیں؛ ایک یہ کہ عمران خان کی حکومت بہت مضبوط ہے اور دوسرا یہ کہ دو بڑی اپوزیشن پارٹیاں پاکستان مسلم لیک نون اور پیپلز پارٹی اپنے راہنماؤں میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف مقدمات اور انکی بیماریوں کہ وجہ سے مزاحمتی سیاست کے موڈ میں نہیں ہیں۔
مولانا پر انکے سیاسی مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی مقاصد کےلیے مذہب کا کارڈ کا استعمال کر رہیں ہیں، مگر جناب شامی کو لگتا ہے کہ مولانا اس میں بھی کامیاب نہیں ہونگے۔انکے مطابق عمران خان کو دیگر علما کے علاوہ مکتبہ دیوبند کے بڑے مبلغ طارق جمیل کی حمایت حاصل ہیں۔ مولاناطارق جمیل نے عمران خان کے تصورِ ریاستِ مدینہ کو کھل کر سراہا ہے۔
اسی طرح ٹیلی وژن کے مقبول میزبان اور روزنامہ ڈان اسلام آباد کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر فہد حسین بھی ایسے کسی خوش فہمی سے گریز کرتے ہیں کہ عمران خان کرسی چھوڑ سکتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی پشتو سروس ڈیوہ سے بات کرتے ہوئے جناب حسین نے کہا کہ ایسے کوئی بھی اشارے نظر نہیں آرہے ہیں کہ جسکی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ عمران خان کو استعفی دینا چا ئیے۔ انکو لگتا ہے نظامِ اقتدار میں کوئی بھی خلل نہیں ہے۔
فہد حسین جناب شامی کی اس دلیل کو درست مانتے ہیں کہ مولانا مذہب کا کارڈ کھیل کر عوام کو بھڑکا سکتے ہیں۔ جب میں نے دریافت کیا کہ انکو موجودہ تناظر میں مولانا کے دھرنے کا ممکنہ انجام کیا نظر آتا ہے تو جناب حسین نے کہا کہ ممکن ہے کہ مولانا کوکچھ سیاسی مراعات دی جائیں اور مستقبل میں پاکستانی سیاست میں اہم کردار کا وعدہ کیا جائے۔ انکے مطابق تب مولانا اپنے کارکنان سے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت جھک گئی۔
البتہ فہد حسین کی اس تعبیر کے اشارے کسی بھی حکومتی ادارے کی جانب سے نظر نہیں ۔
سیاسی امور کے ایک اور مبصر اویس توحید کے مطابق مولانا کا عمران خان سے ذاتی سیاسی جھگڑا ضرور تھا مگر انکو اندازہ ہے کہ عمران خان کو کس نے اقتدار کے ایوان میں پہنچا دیا۔ اویس توحید کے مطابق مولانا کو یہ بھی معلوم ہے کہ عمران خان سے استعفی لینا آسان نہیں ہے۔ انکو لگتا ہے کہ مولانا بظاہر تو استعفی مانگ رہے ہیں مگر اصل میں وہ ایسٹیبلشمنٹ اور عمران کی تعلق کی مضبوط دیوار میں دراڑ ڈھالنا چاہتے ہیں جس میں جناب توحید کے مطابق مولانا بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔
اویس کے مطابق مولانا نے ابھی تک بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔ مولانا نے پاکستان کے سیاسی طور پر ایک جذباتی معاشرے میں ہمیشہ سے دو قسم کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں؛ وہ جب قومی سیاست کے میدان میں اترتے ہیں تو پارلیمان اور آئین پاکستان کا محافظ بن جاتے ہیں اور جب اپنی عقیدت مند کارکنان سے مخاطب ہوتے ہیں تو اپنی سیاسی کمان میں مذھب کا تیر چڑا لیتے ہیں۔
ظاہراً انہیں چالوں کے سبب مولانا میدانِ سیاست کے بڑے شہسوار بن بیٹھے ہیں، انہوں نے اپنی ایک جانب مسلم لیگ نواز جیسے قدرے معتدل سیاسی نظریات رکھنی والی جماعت اور دوسرے جانب پیپلز پارٹی جیسے سیکولر اور عوامی نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کے پشتونخواملی عوامی پارٹی جیسی قوم پرستوں کو لاکھڑا کیا ہیں۔
♦