جہانزیب کاکڑ
ذاتِ انسانی ایک ایسا غیر مرئی اور کرشمہ ساز دائرہ ہے جو بظاہر نظر تو نہیں آتا مگر اسکی اہمیت اور موجودگی سے کسی کو انکار بھی نہیں ہوسکتا۔اسکا فرضی مدّور دائرہ اگر اسکے انفرادیت کی غماز ہے تو اسکا اندرونی جوفی حصّہ دیگر دائروں کو خود میں سمونے یا ان میں سماجانے کی اہلیت سے مالا مال ہے۔یہ کوئی ایسی حقیقت بھی نہیں جوایک جگہ ٹھہری ہوئی ہے بلکہ مناسب مواقع اور زرخیز تعلیمات کی بدولت اسکی رنگارنگی،تنوع اور ہمہ جہت ارتقا کے دائرے برابر پھیلائے جاسکتے ہیں۔
مانا کہ ذاتی مفاد اور تصرف کو اس کی خود غرضی اور ہوس پروری پر محمول کیا جاتا ہے، مگر مفاد اور تصرف کا دائرہ بھی کوئی ایسا مطلق دائرہ نہیں جس میں دیگر ذواتی دائروں کو یاتو شامل نہ کیا جاسکے یا ان میں شامل نہ ہوا جاسکے۔ یہ مفاد ایک ہی سکے کے دو رخُ بھی تو ہوسکتے ہیں جس کے ایک حصّے پر تو ذاتی مفاد کا گُماں ہو جبکہ دوسرا حصّہ بالکل غیر ذاتی نوعیت کا ہو۔
اس کی مثال اُس بچے کی مانند ہے جو عہدِ طفولیت میں تو اپنے کھلونے دیگر بچوں میں بانٹنے سے گُریزاں رہتا ہے مگربالغ ہونے پر اِس کی دلچسپیوں کا دائرہ محلے،اہلِ علاقہ، قوم، مُلک ،دنیا بلکہ پوری انسانیت تک وسیع ہوجاتا ہے۔ چونکہ گروہی مفاد اس کے ضمیر کا حصّہ بن جاتا ہے اس لیے اِس کے گروہ پر پڑتا ہر چوٹ اسکی ذات پر چوٹ متصور ہوگا۔ اور اِسکی کیفیت یہ ہوجاتی ہوگی کہ:۔
ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست
اب تک ذاتِ انسانی چار اقسام کے تہذیبی وتمدنی دائروں کے حصار میں رہ چکا ہے۔ایک وہ ابتدائی دائرہ جس میں ایک تحقیق کے مطابق “میں اورمیرا” کے الفاظ تک وجود نہیں رکھتے تھے۔میری زمین،میرا جائداد، میرا وقار،جیسے امتیازی الفاظ کے بوجھ سے زبانِ حال لٹکی ہوئی نہ تھی۔ تاریخی قوتوں کے بوجھ نے ذاتِ انسانی کے سالم دائرے کو توڑ کر آقائی اور غلامی جیسے احساسات سے بھر دیا۔ایک جانب غلامانہ احساسات ذاتِ آقائی کو تمام اقسام کی ممکنہ مادی وفکری رنگینیاں فراہم کررہے تھے۔ جس سے ان کے غرور،احساسِ ملکیت، اور قوت و اختیار کو جواز فراہم ہوتا رہا۔جس نے ارسطو جیسے مفکر کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ نظامِ غلامی عین فطری ہے یہ کہ معاشرے کے اوپری حصّے یعنی اشرافیہ کو تو کاروبارِ ریاست چلانے، قوانین وضع کرنے اور انہیں نافذ کرنے کااختیار حاصل ہوناچاہییے۔
جبکہ معاشرے کا وسیع تر محروم حصّہ اشرافیہ کے وقار، تفکُر اور انہیں سامانِ زیست بہم پہنچانے کیلئے فقط حیوانِ ناطق رہنے پر اکتفا کرے۔ اِسی کے ساتھ ساتھ درونِ خانہ ایک نسبتاً خاموش قسم کا احساسِ بغاوت بھی پنپتا رہا جس نے بالآخر رومہ کے سپارٹیکس,دورِ عباسیہ کے علی بن محمد،روس کے سٹنکارازن،جرمنی کے ہانس میولر جیسے حساس غلام رہنماوں کے خون کو گرما کر بغاوت پر مجبور کر دیا۔
غلاموں کی ان بغاوتوں نے آقاوں کے نام نہاد وقار کو زک پہنچاتے ہوئے کسی حدانکی عزتِ نفس بحال کروادی۔ اب انہیں احساس ہوا کہ آقاوں اور جاگیرداروں کے وقار کو کیونکر گھٹایا اور اپنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ ماضی کے حاصلات اور احساسِ بغاوت کو منظم کرتے ہوئےایک بار پھر قلعہء باستیل پر دھاوا بول کر جامہء غلامی کو تار تار کرتے ہوئے انقلابِ فرانس کے رہنماوں سے اپنی بات کسی حد تک منواکر ہی رہے۔
مگر انسانی حقوق،تجارت کی آزادی، آزادیء تحریر وتقریر، حقِ رائے دہی، قانون کی حکمرانی، منتخب ومتناسب نمائندگی، کی آڑ میں مخصوص ٹولے کی ایک پیچیدہ اور ناقابلِ فہم بالادستی قائم ہوگئی۔ اِس تمام تر تاریخی صورتحال کو عملی ونظریاتی تجربے میں سمیٹتے ہوئے عوام ُالناس نے ایک بار پھر عظیم تاریخی پیشرفت اِنقلابِ روس کی شکل میں اپنے روح وفہم کے دھند کو چٹا دیا۔
مگر اِس بار ذات کا کمزور مگر بڑا حصہ ایک چھوٹے مگر غالب حصّے پر غالب آگیا اورایک نسبتاً بڑے انسانی اور وجودی دائرے میں داخل ہوا۔ جس میں اُسے نہ صرف اپنے نفسیاتی و روحانی زور کا ادرک ہوا بلکہ کسی حد تک اپنے حالات کو شدید مگر قابلِ فہم صورتحال میں گرا ہوا بھی پایا۔
بالآخر شکستِ روس و انہدامِ برلن کی شکل میں اپنی ذات کے نسبتاً بڑے پھیلاو کو اپنی آنکھوں کے سامنے کرچی ہوتے دیکھ لیا۔ اور ایک بار پھر ذات کے پُرانے مگر مردہ روح کو دوبارہ زندہ ہونے سے نہ روک پایا۔ جو بظاہر ہیبت ناک تو تھا ہی مگر اندر سے نہایت نحیف ونزار۔ اور یہی بھوت ہے جو اب تک ذاتِ انسانی کے واحد مگر تقسیم،وجود کے اوپر منڈلا رہا ہے اور اسے ایک آخری کوشش کے طور پر ایک بڑے اوراپنی نوعیت کے منفرد دائرے میں شامل ہونے کیلئے بار بار دھکیل اور اُکسا رہا ہے۔
♥