انڈیا کے لوگ جب اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اور قابض ا نگریز حکمران کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو مختلف سیاسی۔ ثقافتی اور مذیبی گروہ اور جماعتیں اس تحریک میں حصہ لے رہے تھیں ۔انڈیا کے کمیو نسٹ اور کا نگرس پارٹی اپنے ملک سے انگریز کا قبضہ ختم کر کے اپنی آزادی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے تھے اور عوام کے ووٹوں سے منختب ہونے والی حکومت کے ذریعے ملک کا نظام چلانا چاہتے تھے۔
جمعیت علما ہند انگریزوں کے اس لیے خلاف تھی کہ انگریز لڑکیوں کو تعلیم دینے کی بات کر رہے تھے ، عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے اور ملک کو سیکولر نظام کی طرف لے کر جا رہے تھے۔ جبکہ ملک کے شاعر ، ادیب ، رقاص، مصور، گلوکار جو مختلف پارٹیوں سے منسلک تھے یا انفرادی طور پہ اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے ۔
آل انڈیا مسلم لیگ سب سے آخر میں اس تحریک میں شامل ہوئی تھی، پہلے تو وہ انگریز سے کہتے رہے کہ آپ ہندوستان سے نہ جائیں کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ یہاں ہندووں کی اکثریت ہے اور ہم نے ان پہ حکمرانی کی ہے اب ہندو ہم دے بدلہ لیں گے۔ لیکن جب ان کو یقین ہو گیا کہ انگریز جا رہا ہے تو انہوں نے کہا اچھا اگر جانا ہی ہے تو اس ملک کے دو حصوں میں تقسیم کر جائیں تا کہ ہم مسلمان الگ رہ سکیں۔مجموعی طور پر سب انگریز کے خلاف تھے مگر سب کا اپنا اپنا جواز تھا۔
پچھلے دنوں لاہور الحمر ا میں فیض میلے پہ شہر کے طالب علم نوجوانوں نے اپنے جذبات کا جو اظہار کیآ ہے تو بہت سے گروہ اور انفرادی شخصیات اپنے اپنے جواز رکھتے ان طالب علم نوجوانوں کی مخالفت میں ایک ہو گئے ہیں۔
پہلا گروہ تو ان مذہبی متعصب پسند لوگوں کو ہے جو مخلوط تعلیم کے ہی مخالف ہے اور طلب علم اور نوجوانوں کی اس آزادی کو پسند نہیں کرتے۔
دوسرا گروہ ان انقلابی دانشوروں کا ہے جو فیض احمد فیض کو آتش دان کے آگے بیٹھ کر تیز تمباکو والے سگار کے کش لیے ۔ آئرش کافی یا پھر سکاچ وسکی کا گھونٹ بھرتے فیض کی نظم، غزل
میرے دل میرے مسافر
دل کے رخسار پہ اس وقت یوں رکھاہے تیری یار نے ہاتھ
اک نظر تم میرا محبوب نظر تو دیکھو
گنگناتے ہیں اور انقلاب کو گھر کی دہلیز پہ کھڑا محسوس کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ لڑکے لڑکیاں بد تمیز ہیں ۔ اس طرح نہ تو فیض کی شاعری کو سمجھا جا سکتاہے اور نہ اس طرح انقلاب آسکتا ہے۔ انقلاب لانے کے لیے نوجوانوں کی قیادت نہیں پرولتاری قیادت چاہیے۔
ایک گروہ کہتا ہے یہ لڑکے لڑکیاں لمز (نجی یونیورسٹی ) کے پڑھنے والے ہیں 2۔2 لکھ فیس دیتے ہیں یہ انقلاب نہیں لا سکتے اور نہ ان کو انقلابی نعرے مارنے کا حق ہے ۔بندہ پوچھے لینن کسی موچی کا لڑکا تھا ۔حسن ناصر کسی درزی کا بچہ تھایا اینجلز کسی ترکھان کا بیٹا تھا۔
سب سے دلچسپ وہ گروہ ہے جو ایک زمانے میں خود کمیونسٹ رہا ہے ملحد رہا ہے اب ان میں سے کچھ نہ صرف اینٹی کمیونسٹ ہیں بلکہ دن کا بیشتر حصہ مسجد میں گزارتے ہیں۔ ہر انسان کو حق ہے کہ وہ کسی وقت بھی اپنے نظریات تبدیل کر سکتا ہے۔
یہ گروہ کمیونزم سے اختلاف کی سب سے بڑی وجہ کمیو نسٹ ممالک میں لوگوں کے ساتھ کیا جانے ولا غیر انسانی سلوک ہے اور ملین لوگوں کا قتل عام ہے ۔ یعنی ان سے اختلاف نظریہ پہ نہیں قیادت کے غیر انسانی سلوک پرہے ۔
یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ اس قیادت نے ” پرولتاری آمریت” فلسفے کا غلط استعمال کیا اور لوگوں کا قتل عام کیا ۔ مگر ایسے لوگ کمیونزم سے انحراف کرتے یہ بھول جاتے ہیں یہ نظام انسانوں کا تخلیق کردہ ہے جس میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے کوئی مذہبی تھیوری نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی ہی نہیں لائی جا سکتی۔
اس کے مقابلے وہ سرمایہ داری نظام کی حمائت میں تقریر کرتے ہیں ۔ان کو کمیو نسٹ ممالک میں ہونے والے قتل عام تونظر آتا ہے مگر لوٹ کھسوٹ کےسرمایہ داری نظام، اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے وہ جو جنگیں کرتا اور کراتا ہے وہ نظر نہیں آتا جس میں ملین آدمی مرتے ہیں ۔ کیا امریکہ نے اپنا مال بیچنے کے لیے عراق میں بمبارمنٹ کرکے لکھوں لوگ نہیں مارے افریکہ میں بھوک سے ملین انسان نہیں مارے ۔آج اگر دنیا میں مزدور کو تھوڑے بہت معاشی حقوق ملے ہیں۔ ووٹ کا حق ملا ہے عورت کو تھوڑے بہت حقوق ملے ہیں وہ انہی لبرل۔ سیکولر اور کمیونسٹوں کی جد و جہد کا نتیجہ ہی ہے۔
مگر جہاں کہیں ان کو لال جھنڈا نظر اتا ہے لال لال کا نعرہ سنائی دیتا ہے، لفظ انقلاب دیکھتے ہی بدک جاتے ہیں اور گالیاں دینا شروع کر دیتے ۔ جیسے مولوی جس بھی روٹی کا نعرہ لگاتے سنتا ہے اسے اس میں کمیونسٹ نظر آتا ہے۔یہ گروہ سب سے بڑھ کر ان طالب علموں کو اس دن سے گالیاں دے رہاہے۔
گالی دینے سے پہلے غور سے سن تو لو وہ کہہ کیا رہے ہیں ۔ وہ تین مطالبے کر رہے ہیں
۔1 طالب علم یونین کی بحالی، جس پہ مکروہ تریں آمر ضیا نے پا بندی لگائی تھی کیا یہ نا معقول نعرہ ہے ۔ لیکن آپ سب مل کر انہیں گالیاں دے رہے ہیں ۔
۔2 طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ۔ہر حکومت تعلیمی بجٹ کم کرتی جا رہی ، جس کی وجہ سے ہر گلی شہر صوبے میں نجی تعلیمی ادارے کھل رہے ۔جس کی وجہ سے 69 فیصد بچوں پہ تعلیمی دروازے بند ہو رہے ہیں ۔ہمیں زیادہ سے زیادہ عسکری ہاوسنگ کالونیاں نہیں سکول کالج یونیورسٹیاں کھولنی چاہیے تاکہ ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکیں ۔
۔3 معاشرے میں سوال کرنے ،انکار کرنے کی تربیت دی جائے، ایک ان لکھے سنسر شپ کے خلاف تحریک چلائی چلائی جائے۔ ان بند ذہنی پرانے کمیونسٹوں سے درخواست ہے گالی دینے سے پہلے ان ویڈیو کو دیکھو ان طالب علموں میں شامل عروج اورنگزیب کا انٹرویو سن لو پھر بات کرنا۔
جب ہم نوجوان تھے ہم نے کب اپنے اباواجداد کی لائن کو اپنایا تھا ہم نے اپنی لائن اپنائی تھی ۔آج یہ نوجوان اپنی لائن اپنا رہے ہیں ہم کون ہوتے ہیں ان کو بدتمیز کہنے والے۔مجھے تو ان میں اپنی جوانی نظر ا گئی ہے۔ میں بھی اسی طرح نعرے مارتا تھا۔ اشتہاروں پہ لیوی لگا لگا کر پوروں سے خون نکل آتا تھا۔
دوستوں سے درخواسست ہے ان تینوں ویڈیو کو دیکھیں غور سے سنیں وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ خصوصی طور پہ عروج اورنگزیب کا انٹر ویو سنیں اور 29 نومبر کو نکلنے والے سٹوڈنٹ یکجہتی مارچ میں شرکت کریں۔
♣