پاکستان کی دیواروں پہ عام طور، اور سندھ کی دیواروں پہ خاص طور، یہ دو نعرے کبھی پرانے نہیں ہونے اور نہ ہونگے۔ ایک، “جام ساقی کو آزاد کرو اور دوسرا نعرہ ہے “آصف زرداری کو آزاد کرو”۔ جام پیارا تو زندگی کی قید سےا ٓزاد ہوچکا۔ پر جب وہ عمر کے ٓآخر میں تھا تب میں نے سوچا تھا اب شاید کبھی جیل نہیں جائے گا ۔
مگر یہ عمر سومرو بادشاہ والی رسم بھی تھری حکمران ارباب رحیم ( جو کہ سندھ کے وزیر اعلی سے زیادہ ضلع تھر یا مٹھی کا وزیر اعلی لگتا تھا) نے پوری کی جس نے عالمی شہرت کے انقلابی اور درویش صفت جام ساقی کو نہیں اسکی بیوی کو جیل اور تھانے دکھلائے۔ گاؤں کے لوگوں کو کس طرح معلوم ہو کہ انکے علاقے کا باسی حکمران بنا ہے؟ جب تک یا تو کوئی ٹیچر نگر پارکر سے جیکب آباد تبادلہ ہوکر نہ پہنچے یا پھر اپنے ہی علاقے کے کسی شخص کو جیل نہ بھجوائے وہ بھی جام ساقی جیسے کو۔ خیر۔
اسی طرح ملک کی دیواروں پہ تحریر شدہ یہ نعرہ بھی کبھی پرانا نہیں ہوتا “ٓ آصف زرداری کو آزاد کرو”۔ اب دیوار گرے تو گرے۔ جیسے شیخ ایاز نے کہا تھا “دیوار گرے تو ملوں تجھ سے”۔ شیخ ایاز نے تو یہ بھی کہا تھا: “ آخر تو ڈھے گی کب تک رہے گی دھوکے کی دیوار او یار”۔ ایاز سے زیادہ فقیر عبدالغفور نے اسکی اس وائی کو گاکر امر کردیا تھا۔ تم میں سے جن لوگوں نے سندھی فلم “مٹھڑا شال مِلن” نہیں دیکھی تھی ۔
جب سینما میں ستر کی دہائی کے سندھی نوجوان اسپر جھومریاں پاتے نعرے لگاتے نہ دیکھے اور سنے جاتے تھے، تو وہ سرحد پار اس سندھیانی فلمساز سپنا موتی بھاونانی کی فلم سندھستان کراچی جاکر ضرور دیکھیں جو جلد ہی دی سیکنڈ فلُور یا ٹی ٹو ایف میں بھی دکھائی جانیوالی ہے۔ نہ جانے بات کہاں سے شروع ہو کر کہاں جا کے نکلتی ہے۔ بھٹائی نے کہا تھا “من اونٹوں کی ٹولی (وگ) کی طرح ہوتا ہے ایک جگہ ٹک نہیں پاتا۔
بات سے بات جو نکلی ہے تو پھر یہ بھی بتاتا چلوں کہ کبھی کراچی کی دیواروں پہ لکھا ہوتا تھا “ محفوظ یار خان کو آزاد کرو”۔ ایک رات کراچی پولیس نے ایک شخص کو یہ نعرہ دیوار پہ لکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ جب پولیس نے اس شخص سے اسکا نام پوچھا تو اس نے پولیس کو اپنا نام بتایا “محفوظ یار خان”۔
پر پنڈی اور اسلام آباد کی دیواروں کے اس پار اپنی بہن سمیت قید جو شخص آصف علی زرداری ہے اس سے پاکستان کے اصلی تے وڈے چودھری حکمرانوں نے جن کے چھوٹے بڑے تھانیدار جام صادق علی اور ارباب رحیم جیسے تھے، نے ہر دور میں ایسا سلوک کیا ہے جیسا خیرپوری تالپور حکمران اپنے قیدیوں سے کیا کرتے تھے ۔ کہتے “ چاڑہ چھوڑوس کوٹڈجی دے قلعے تے وڈاں دی نشانی ہے”۔
اس ہر دور کے قیدی آصف علی زرداری جسے اسکی پارٹی کے جیالے “بی بی کی نشانی” سمجھتے ہیں اسے پاکستان کے یکے بعد دیگرے سول حکمرانوں بشمول عمران خان نے “بڑوں کی نشانی” برتا ہوا ہے۔
فرض کریں، مجھے نہیں معلوم کہ بینظیر کے قتل کے بعد جل اٹھنے والے سندھ میں ( سندھیوں کے غصے کا ایک ٹریلر سندھ یونیورسٹی کی سینٹرل لائبریری اور دوسرا روینیو ریکارڈوں کو آگ لگانا تھا) وہ اگر “پاکستان کھپے کھپے” کا نعرہ نہ لگاتے تو آگ کس بنگلے پر جاکر پہنچتی۔ مگر بہت سے دل جلوں نے تو یہ بھی کہا کہ “کھپے” کا ایک مطلب بیچنا بھی ہوتا ہے۔
بہرحال اسکی اس “کھپے کھپے” یا پھر بی بی کے خون کے طفیل زرداری جا کر ایوان صدر کی کرسی پہ بیٹھا۔ اس ایوان صدر میں جسکے پانچویں فلور پر کبھی بینظیر بھٹو کے پہلی مرتبہ وزارت عظمی کی حلف برداری کے دوران جیکب آباد کے سندھ پی ایس ایف کے سرماؤں نے جب “زندہ ہے بھٹو زندہ ہے” کا نعرہ لگایا تھا تو پہلی صف میں بیٹھے اعلی حکام کی پیشانیوں پر نہ صرف بل آئے تھے بلکہ انکی وردیوں پر بھی سلوٹیں پڑی تھیں۔
وہ ایوان صدر جس میں جنرل رفاقت کی سرکردگی میں قائم ایک خفیہ الیکشن سیل کے ذریعے 1990 کے انتخابات چوری کیے گئے تھے۔ جس ایوان صدر نے جام صادق علی کو سندھ پر تھانیدار بنا کر بھیجا تھا۔ اس ایوان صدر میں اب بھنڈی اور دال خور زرداری صدر بن تو بیٹھا مگر اسے کوئی راز کی بات اپنے قریبیوں سے کرنے کو بھی ایوان صدر کے کمروں سے باہر لان میں آنا پڑتا تھا۔
لیکن اس نے اپنی معیاد کے پانچ سال مکمل کرنے کا تاریخی ریکارڈ قائم کیا۔ بظاہر اپنے تمام اختیارات پارٹی وزیر اعظم کو سونپ دیے۔ اور یہ ماننا مراد ہے کہ اس نے سرحد صوبے کا نام تبدیل کرواکر خیبر پختونخواہ کیا۔ اس سے بھی بڑی بات کہ اس نے آئین میں تمام پارٹیوں کے اتفاق سےاٹھارویں ترمیم منظور کروائی جو تا حال اسکی مسلسل قید و بند کا مؤجب بنی ہوئی ہے۔
پاکستان کے اصلی تے وڈے چودھری حکمران آئین سے اٹھارویں ترمیم ختم کروانا چاہتے ہیں کہ اس ترمیم سے چھوٹے صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی بڑی رقوم آتی ہیں جو وہ اس کے حق میں نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے خاتمے میں وہ زرداری اور اسکی پارٹی کی حمایت چاہتے ہیں جس سے زرداری انکاری بنا ہوا ہے۔ اس ملک کے سیاہ و سفید کے اصل مالک چاہتے ہیں کہ زرداری اور اسکی پارٹی اس میں تعاون کریں۔
اسی لیے اسے حسب ماضی اب بھی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر احتساب و انصاف ہوتا دکھائی دیتا تو پھر علیمہ خان اور ملک ریاض بھی قابو ہوتے۔ رضوان اختر بھی اسی پنجوڑ میں پھنسا دکھائی دیتا جسے پھر آبپارہ میں ملک کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ جنرل کیانی اور مشرف بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے. جنرل کیانی جو کہ این آر او کا خالق تھا۔ یہ بھی کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بینظیر کے برعکس زرداری این آراو کے بالکل حق میں نہ تھا۔
زرداری جس نے اپنے دور صدارت میں انتقامی پالیسی سے احتراز کیا۔ سوائے اسکے علاقے کے دو تین ڈاہری وڈیروں اور ٓآغا خانی اور بوہرہ سیٹھوں کے۔ رہی ذوالفقار مرزا کی شوگر ملیں اور زمینیں چھیننے کی بات تو یہ ان دو پرانے یاروں کی کے درمیان لڑائی اس سندھی کہاوت کی پچھلی نصف کے مصداق ہے “ بھلا ہو مالکوں کا” (نوٹ: پوری سندھی کہاوت ہے “لڑیں چور بھلا ہو مالکوں کا”) ۔ ذوالفقار علی بھٹو سخت انتقام پسند حکمران تھا لیکن اب بھٹو اور ضیا کے بعد عمران خان سخت انتقام پسند حکمران ثابت ہوا ہے۔
وہ شخص جسے لندن یا دبئی میں بچے کھلانا یا بے سٹنگ کرنی تھی وہ بینظیر کے قتل کے بعد ملک کا صدر بنا۔ باقی سندھ میں اسکے زرداری پارٹی راج نے دیوالیہ نکالا ہوا ہے۔ عجب نہیں کہ وہ سمجھتا ہے کہ سندھی اسکے نہیں اسکی بی بی کے بے زمین مزارعے یا سیاسی غلام ہیں۔ وہ کہیں نہیں جانیوالے۔ مگر سندھی کہتے ہیں “دوسرے کونسے دودھوں دھلے ہوئے ہیں۔ وہ ان سے بڑے چور ہیں”۔
(اصل سندھی میں روزانہ “پنھنجی اخبار” میں شائع ہوا)