سبطِ حسن
ایک آنکھ والاجن۔۔ایک یونانی کہانی
ایک دفعہ کا ذکرہے ، یونان میں ایک بہادر اورسمجھ دار شخص رہتا تھا۔ اس شخص کانام یولیسز تھا۔ وہ اور اس کے سپاہی ٹرائے کی جنگ میں شریک ہوئے تھے اور انھوں نے بڑی بہادری سے یہ جنگ لڑی۔ جنگ ختم ہوگئی تو یہ اپنے گھروں کو لوٹے ۔ گھروں کولوٹنے کے لیے یولیسز اور اس کے سپاہی جہازوں پر بیٹھ گئے۔
اس زمانے میں بادبانی جہاز ہوتے تھے۔ جس سمت ہوا چلتی ، اسی سمت جہاز جاسکتاتھا۔ ہوا یہ کہ جب یولیسز کے جہازوں نے گھر کاسفر شروع کیا تو کچھ دور جانے کے بعد ہوائیں الٹی سمت میں چلنے لگیں۔جہاز، سمندر میں اپنا راستہ کھوبیٹھے۔ وہ وسیع سمندر میں بھٹکنے لگے۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔ جہازپر موجود خوراک اورپینے کا پانی کم ہونے لگا۔ اسی دوران جہا زایک جزیرے کے پاس جارکے۔
اس جزیرے کے بارے میں کسی کو کچھ بھی معلوم تھا۔ پھر بھی سب لوگوں نے سوچا کہ چلو اس جزیرے سے خوراک اور پانی تو مل ہی جائے گا۔ یولیسز ، سب سے پہلے جہاز سے اترا۔ اس کے ساتھ چند اورسپاہی تھے۔ وہ سب سمندر کے ساحل سے چلتے ہوئے بستی کی طرف آئے۔ وہاں عجیب شکلوں والے جنّ بیٹھے تھے۔ ان جنوں کی ایک آنکھ تھی اور وہ بھی ماتھے کے درمیان ۔
یولیسز کو بالکل بھی اندازہ نہ تھاکہ یہ جنّ کیسے ہیں۔ کیا وہ اسے خوراک اور پانی دیں گے یا اسے مارنے کی کوشش کریں گے۔ یولیسز ان جنوں کے قریب سے گزرا ۔ جن چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔ پاس ہی ایک بلند پہاڑ تھا اور اس میں ایک غار نظر آرہی تھی۔ یولیسز نے سوچاکہ شاید جنوں کاسردار اس غار میں رہتا ہو۔
یولیسز اپنے سپاہیوں کے ساتھ غار تک پہنچا۔ ان کے پاس شربت کے بڑے بڑے مرتبان تھے۔ اس شربت کو پی کر کوئی بھی شخص اپنے ہوش وحواس کھو سکتا تھا۔ یولیسز نے سوچا کہ وہ جنوں کے سردار کو یہ شربت تحفے کے طورپر دے دے گا۔ جب یولیسز نے غار کے اندر جھانکا تو اسے لگا کہ غار اندرسے بہت بڑی ہے۔ غار کے اندر بہت سے گھر بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف بھیڑ بکریوں کے لیے باڑے تھے۔ ایک طرف آگ جل رہی تھی۔یولیسز اور اس کے ساتھی آگ کے پاس بیٹھ گئے۔ وہ ، گھر کے مالک یاجنوں کے سردار کے آنے کاانتظار کرنے لگے۔ وہ بھیڑیں خریدنا چاہتے تھے تاکہ جہاز پر بیٹھے بھوکے سپاہیوں کے کھانے کابندوبست کیاجاسکے۔
یولیسز اور اس کے ساتھیوں کوزیادہ دیرکے لیے انتظار نہ کرناپڑا۔ انھوں نے غار میں بہت سی بھیڑوں کے داخل ہونے کی آواز سنی۔ بھیڑوں کے پیچھے ایک بہت بڑا جن بھی غار کے اندر چلاآرہا تھا۔ جنّ اس قدر بڑاتھاکہ اس نے اپنے کندھے پر درختوں کے بہت سے تنے اٹھارکھے تھے۔ تنے اس طرح آسانی سے اٹھارکھے تھے کہ جیسے کہ چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں ہوں۔ وہ سیدھااس جگہ پر آیا جہاں آگ جل رہی تھی ۔ اس نے درخت کے تنوں کو آگ میں پھینکااورپھر ایک بھاری پتھر کو اٹھا کر غار کے منہ کے اوپر لگادیا۔ تنوں کو آگ لگتے ہی پوری غار روشن ہوگئی ۔ اسی وقت، اس جن کادھیان یولیسز اور اس کے ساتھیوں کی طرف گیا۔
’’۔۔۔میں بھوتان جن ہوں۔۔ ۔ تم اس غار میں کیاکررہے ہو۔۔۔؟‘‘جن دھاڑا۔
یولیسز اور اس کے ساتھی جن کی آواز سے سخت ڈر گئے ۔ وہ اب غار میں قید ہو چکے تھے اور یہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ بھی نہ تھا ۔ وہ سب مل کر بھی غار کے پتھر کواپنی جگہ سے نہ ہٹا سکتے تھے۔ آخر یولیسز نے بات کرنے کے لیے ہمت اکٹھی کی۔ کہنے لگا:۔
’’ہم سب سپاہی ہیں اور ٹرائے کی جنگ سے واپس آرہے ہیں۔ہم اپنے گھروں کو جارہے تھے کہ ہوائیں ہمارے جہازوں کوتمھارے جزیرے پرلے آئیں۔ ہمارے پاس کھانے اور پینے کے لیے ساراسامان ختم ہو چکاہے۔۔۔ ہم ، تم سے کھانے کے لیے بھیڑیں خریدنا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘
جب یولیسز بات کررہاتھا تو جنّ نے ایک لفظ بھی نہ بولا۔ اس نے اپنی انگلیوں میں یولیسز کے دو سپاہیوں کو اٹھا یا اور انھیں اس طرح کھاگیا جیسے وہ کوئی گاجر یا مولی ہوں۔ اس کے بعدجن نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور سوگیا۔
یولیسز اور اس کے ساتھیوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ جن کی قید میں کیا کریں۔ وہ سب سخت ڈرے ہوئے تھے۔ انھیں معلوم ہوگیا تھا کہ ان سب کی جان سخت خطرے میں ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ سب مل کر، پوری کوشش کرکے بھی اس جنّ کا کچھ نہیں بگاڑ نہیں سکتے تھے۔ پھر یہ بھی کہ اگر وہ جنّ کومار بھی دیں تو غارسے باہر کیسے نکلیں گے؟ یولیسز نے اپنے ساتھیوں کو کہاکہ وہ ایک جگہ اکٹھے ہو کرلیٹ جائیں اور سو نے کی کوشش کریں۔ صبح شاید، جن سے جان چھڑانے کی کوئی صورت نکل آئے۔
صبح صبح جنّ اٹھا ۔ اس نے ناشتے کے طورپر دواورسپاہیوں کو کھالیا۔ پھر غار کے منہ سے پتھر ہٹایا اور تمام بھیڑ بکریوں کو غار سے باہر ہانک دیا۔پھر خود بھی باہر چلا گیا اور غار کامنہ پھر سے بند کردیا۔
جن کے باہر جانے کے بعد یولیسز اور اس کے ساتھیوں نے اُدھر پڑا جن کاکھاناکھایا۔ پھر غار سے نکلنے کے لیے سوچ بچار کرنے لگے۔ آخر یولیسز نے ایک ترکیب سوچ لی۔
یولیسز اور اس کے ساتھیوں نے غارمیں پڑے ہوئے ایک تنے کو اٹھایا اور اس کے ایک سرے کو نوکداربنادیا۔ وہ سارا دن اس کام میں مصروف رہے۔ شام ہو نے سے پہلے کام مکمل کیا اورنوکدار تنے کو غار کے پچھلے حصے میں چھپا دیا تاکہ جن اس کو نہ دیکھ سکے۔
شام ہوتے ہی بھوتان جن غار میں واپس چلا آیا۔ اس نے پہلے بھیڑ بکریاں غار کے اندر ہانکیں اورپھر غار میں داخل ہو کر غار کامنہ پتھر سے بند کردیا۔ پھر اس نے آگ جلائی اورپھر کھانے کی تیاری کرنے لگا۔اس سے پیشتر کہ جن سپاہیوں کو کھانے کے لیے اٹھاتا، یولیسز نے جن سے کہا:
’’بھوتان جن، ہم آپ کے لیے بہت عمدہ شربت لے کر آئے ہیں۔۔۔ اگر آپ کھانے سے پہلے اسے پی لیں تو آپ کو کھانے کا مزاآئے گا۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پہلے مجھے اس شربت کاایک گھونٹ دو۔۔۔۔‘‘
جن نے کہا۔ یولیسز نے شربت کا ایک مرتبان جن کے آگے رکھ دیا۔ جن نے شربت کامرتبان ایک گھونٹ میں ختم کردیا۔ اسے شربت اچھا لگا ۔ کہنے لگا‘
’’یہ توبڑا عمدہ شربت ہے۔۔۔مجھے اور دو۔۔۔‘‘ یولیسز نے سارے مرتبان جن کے سامنے رکھ دیے۔
’’۔۔۔بہت اچھا ۔۔۔ مزا آگیا۔۔ ۔ تم نے اپنا کیانام بتایاتھا۔۔۔ نام ۔۔۔ ‘‘جن دھاڑا۔
’’میرا کوئی نام نہیں ہے۔۔۔‘‘ یولیسز نے کہا۔
’’تمھاراکوئی نام نہیں۔۔۔ٹھیک ہے ہم تمھارا نام ، ’بے نام ‘ رکھتے ہیں۔۔۔ ہم خوش ہیں اور تمھارے لیے یہ رعایت دیتے ہیں کہ ہم تمھیں سب سے آخر میں کھائیں گے۔۔۔!‘‘ جن نے کہا۔
تھوڑی دیرمیں جن کے ہوش وحواس ، سب غائب ہوگئے۔ وہ پہلے بے ہوش ہو ا اور پھر گہری نیند سو گیا۔ یولیسز جن کے قریب آیا ، اور اس نے جن کے ہاتھ کو ہلایا۔ جنّ گہری نیند سو چکاتھا۔
تسلی کرلینے کے بعد کہ جن واقعی سو چکاہے، یولیسز اور اس کے ساتھی غارکی پچھلی طرف دوڑے اور سب مل کر نوکدار تنا اٹھا لائے۔ تنے کی نوک کو جن کی آنکھ میں رکھا اور پوری طاقت سے اسے دبانے لگے۔
جن کو سخت تکلیف ہورہی تھی۔ وہ تکلیف میں دھاڑنے لگا۔ نوکدار تنا اس کے ماتھے میں گھس چکا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح ادھر اُدھر بھاگ رہا تھا ۔ وہ کبھی غار کی دیواروں سے ٹکراتا اور کبھی آگ میں گر پڑتا۔ جب اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہو چکاہے تو اور بھی زور زور سے دھاڑنے اور شور مچانے لگا۔اس کے چیخنے چلانے کی آواز یں غار سے باہر بھی جارہی تھیں ۔ انھیں سن کر اس کے ساتھی جنّ، غار کے منہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ وہ چلارہے تھے۔
’’بھوتان، تمھیں کیا ہوگیاہے۔۔۔؟ تم کیوں اتنی تکلیف میں ہو۔۔۔؟‘‘
’’مجھے ’بے نام‘ نے اندھا کردیاہے۔۔۔ بے نام نے۔۔۔‘ ‘ جن نے جواب دیا۔
’’یہ بے نام کو ن ہے۔۔۔؟ بھلا بے نام بھی کوئی ہو سکتاہے۔۔۔ لگتاہے تم پاگل ہو گئے ہو۔۔۔ تم نے کوئی خواب دیکھاہے۔۔۔ شورمت مچاؤ ۔۔ ۔ بس چپ چاپ سو جاؤ۔۔۔‘‘
غار کے باہر کھڑے جنوں نے بھوتان کو سمجھایا اوراپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ساری رات بھوتان ، یولیسز اور اس کے ساتھیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتارہا۔ وہ اندھا تھا اوریولیسز اور اس کے ساتھی اسے چکمہ دیتے رہے۔صبح سویرے بھوتان غار کو ٹٹولتا ہوا اس کے منہ کے پاس آیا ۔ وہ بھیڑ بکریوں کو غار سے باہر نکالنا چاہتاتھا ۔
اس کی کوشش تھی کہ یولیسز اور اس کے ساتھی بدستور غار میں ہی قید رہیں ۔ وہ غار کے منہ پربیٹھ گیا ۔ وہ باہر نکلنے سے پہلے، ہر بھیڑ اوربکری کواپنے ہاتھوں سے ٹٹولتا اورپھر اسے باہر جانے دیتا ۔ غارکے پچھلے حصے میں یولیسز اور اس کے ساتھی، بھوتا ن کوبھیڑ بکریاں غا ر سے باہر نکالتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ بھوتان صرف بھیڑ بکریوں کی کمرپر ہاتھ پھیرتاتھا۔
یولیسز نے فوراًاپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ وہ بھیڑ بکریوں کے نیچے رینگتے ہوئے غا ر کے منہ تک آئیں ۔ سب نے ایسا ہی کیا۔ وہ بھیڑوں کی لمبی لمبی اون کے نیچے ، ان کی ٹانگوں کے در میان رینگتے گئے۔ اسی طرح رینگتے ہوئے بھوتان کے پاس آئے۔ بھوتان نے بھیڑ بکریوں کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور بھیڑوں کو باہر جانے دیا۔ اس طرح ہر آدمی ایک بھیڑ کے نیچے رینگتاہوا ، بھوتان کی غار سے باہر نکل گیا۔
سب بڑے خوش تھے۔ جب وہ غار سے کافی دور چلے گئے تو انھوں نے بہت سی بھیڑوں کو ہانکااور جہازوں کی طرف لے آئے۔ اس وقت بھوتان جن کو یولیسزاور اس کے ساتھیوں کے غار سے فرار ہوجانے کا اندازہ ہو چکاتھا۔ وہ غار سے باہرنکل آیااور اس نے جہازوں کی جانب پتھر پھینکنے شروع کردیے ۔ یولیسز اور اس کے ساتھیوں نے جلدی جلدی بھیڑوں کو جہاز پر لادا اور بڑی تیزی سے چپو چلاتے ہوئے جہازوں کو ساحل سے دورلے گئے۔
سب کو اپنے چار ساتھیوں کے بھوتان کے ہاتھوں مرجانے پر بڑا افسوس تھا مگر وہ خوش تھے کہ باقی ساتھیوں کی جان بچ گئی ۔ بھوکے سپاہیوں کے لیے بھیڑیں بھی مل گئیں۔ سمندر میں جاکر بادبان سیدھے کیے گئے۔ ہوائیں ان کے گھر کی طرف چل رہی تھیں۔ سب خوش ہوگئے اور کئی دنوں کے سفر کے بعد اپنے گھروں کولوٹ آئے۔
One Comment