رام پنیانی
شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) جیسے ہی پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں منظور ہوا، سارے ہندوستان میں مختلف النوع اور منفی ردعمل آشکار ہوئے۔ ایک طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ شمال مشرق میں زبردست احتجاج ہوئے جو چار افراد کی موت کا سبب بنے۔ دوسری طرف ملک بھر میں ہندوستانی دستور کو مقدم سمجھنے والوں اور مسلم برادری میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔ یہ بل جو اَب شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) بن چکا؛ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ستم زدہ ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جین، پارسی اور عیسائیوں کو شہریت کے حقوق دیتا ہے۔ نمایاں بات ہے کہ مسلمانوں کو اس فہرست سے خارج رکھا گیا ہے۔
اس قانون میں تشویشناک اور خطرناک امر یہ ہے کہ مذکورہ تین ملکوں میں مظلوموں کو شہریت کی پیشکش کی گئی ہے، لیکن بعض ممالک جیسے میانمار جہاں حالیہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف بدترین ظلم و ستم ڈھایا گیا، انھیں اِس فہرست میں کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے۔ نیز نئے قانون شہریت میں متذکرہ ممالک میں تک مسلمانوں کے بعض فرقے ظلم کا شکار بتائے جاتے ہیں، اُن کو بھی خارج رکھا گیا ہے۔
سی اے بی متعارف ہوتے ہی، اُس کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا جاچکا اور اس کے مقصد کو آشکار کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہمارے تکثیریت کے حامل ہندوستان کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ بھی عجیب و پریشان کن بات ہے کہ سی اے بی کا دفاع کانگریس کو موردِ الزام ٹہراتے ہوئے بیان کیا گیا کہ تقسیم ہند عقیدہ ؍ مذہب کی اساس پر ہوا ہے! یہ دونوں دعوے بالکلیہ جھوٹ ہیں۔
راجیہ سبھا میں مسٹر امیت شاہ نے اپنی تقریر کے دوران جارحانہ انداز میں کہا: ’’اِس دیش کا وبھاجن اگر دھرم کے آدھار پر کانگریس نہ کری ہوتی تو اِس بل کا کام نہیں ہوتا (کانگریس نے اگر اِس ملک کو مذہب کی اساس پر بانٹا نہ ہوتا تو اِس بل کی ضرورت نہیں پڑی ہوتی)‘‘۔ اس کے جواب میں کانگریس کے ششی تھرور نے کہا کہ امیت شاہ ہسٹری (تاریخ) کے پہلو سے صرفِ نظر کررہے ہیں۔ حقائق تو کچھ اور ہیں۔ مسٹر شاہ آر ایس ایس ورکر رہے جو بعد میں آر ایس ایس اسٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی میں شامل ہوئے۔
ششی تھرور کی بات کے مغائر شاہ نے تو آر ایس ایس پریوار کی سکھائی گئی تاریخ کو اپنایا اور اسے اپنے سینہ میں بٹھالیا۔ ہم یہ بھی یاد رکھیں کہ بابائے قوم کے قاتل نتھو رام گوڈسے نے تک کانگریس کے سرپرست گاندھی جی کو تقسیم ہند کیلئے ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس پر اکثر ہندو قوم پرست یقین رکھتے ہیں۔ قومیت کی اساس کے طور پر مذہب کی بات کرنا بڑی حد تک ساورکر اور پھر جناح سے منسوب ہے۔ حقیقت میں یہ کافی پرانا معاملہ ہے۔
مذہب کو قومیت کی اساس کے طور پر پیش کرنے کی ابتدا کا جائزہ لینے سے قبل ہمیں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سامراج آقا انگریز اصل محرک رہے جنھوں نے ایک طرف مسلم لیگ اور دوسری طرف ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس کی دو قومی نظریہ کو اپنانے کیلئے حوصلہ افزائی کی۔ سب سے پہلے انگریزوں نے تاڑا کہ اُن کی ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ پالیسی کو آگے بڑھانے میں یہ دو تنظیمیں ؍ فریق مددگار ہیں۔
بعد میں ہندوستان چھوڑو تحریک 1942ء کے عروج کے دور میں انھوں نے ایک اور پہلو پر ذہن لڑانا شروع کیا۔ یہ اُس دور کے ارضی و سیاسی حقائق رہے۔ روس دنیا میں طاقت کی سیاست میں دیگر بڑی قوت کے طور پر اُبھر چکا تھا۔ وہ دنیا پر برطانوی۔ امریکی تسلط کو چیلنج پیش کررہا تھا۔ روس مخالف سامراج تحریکات کو حوصلہ بھی دے رہا تھا۔ تحریک آزادی کے کئی قائدین نظریۂ اشتراکیت (سوشلسٹ آئیڈیالوجی) سے متاثر ہوئے۔ اسے ملحوظ رکھتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم انگریزوں کے ذہن میں ایک اہم قدم بن کر اُبھرا۔ اس کے پس پردہ محرک رہا کہ وہ تشکیل شدنی پاکستان کے ذریعے اس خطہ پر اپنی گرفت برقرار رکھ سکتے ہیں۔
جہاں تک مذہب کے نام پر قوم پرستی کی شروعات کا معاملہ ہے، یہ پچھڑتے طبقات، زمینداروں اور بادشاہوں کا بدلتے حالات میں ردعمل رہا، جہاں صنعت کاری، مواصلات اور عصری تعلیم کے ذریعے ہندوستان سکیولر جمہوری قوم کے طور پر اُبھرنا شروع ہوا۔ اُبھرتے طبقات اور نئی نئی سماجی تبدیلیوں کے نمائندہ مختلف گروپ جیسے مدراس مہاجن سبھا، پونے سروجاکک سبھا، بمبے اسوسی ایشن وجود میں آئے اور انھوں نے 1885ء میں سیاسی تنظیم ’انڈین نیشنل کانگریس‘ تشکیل دی۔
پچھڑتے طبقات بدلتے حالات سے ہم آہنگ نہیں ہورہے تھے۔ دونوں مذاہب کے جاگیردار طبقات، زمیندار اور حکمران کافی متزلزل ہوگئے کیونکہ پیدائش کی بنیاد پر درجہ بندی کا سسٹم جس کے بل بوتے پر وہ خود کو برتر باور کراتے تھے، اب بکھرنے لگا تھا۔ اس مرحلہ پر مسلم گوشہ نے کہنا شروع کیا کہ اسلام خطرے میں ہے اور ہندو طبقات نے اس صورتحال کو کچھ اس طرح پیش کیا جیسے ہندو مذہب کو خطرہ ہے۔
جب انڈین نیشنل آرگنائزیشنز کی طرف سے دلتوں اور عورتوں کیلئے تعلیم کی متوازی سرگرمیاں زور پکڑنے لگیں، جاگیردار طبقات نے اسے مذہبی طور پر تعین کردہ عدم مساوات پر وار تصور کیا۔ ابتدائی طور پر جاگیردار اور بادشاہ ان تنظیموں کا حصہ رہے، بعد میں وہ دیگر اعلیٰ طبقہ اور پھر متوسط لوگوں کے طبقات کی تائید و حمایت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
یہ ہے مسلم اور ہندو کی مذہبی قوم پرستی کی بنیاد۔ لہٰذا، ایک طرف ہمارے پاس ہندوستانی قوم پرستی ہے جس کی وسیع طور پر گاندھی جی، امبیڈکر اور بھگت سنگھ سے شناخت ہوسکتی ہے، دوسری طرف مسلم لیگ کی تشکیل 1906ء میں ہوئی، ہندو مہاسبھا 1915ء اور آر ایس ایس 1925ء میں وجود میں آئے۔ آخرالذکر گروپ کافی قدیم عظمت رفتہ کی باتیں کرتا ہے جبکہ انڈیا کے قوم پرست دھارے نے سماج میں موجود عدم مساوات کے خلاف جدوجہد کی ضرورت محسوس کی۔
مذہبی قوم پرستی کی باتیں ساورکر سے شروع ہوئیں، جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو حریف باور کرایا، اور مسلم لیگ نے زور و شور سے اپنا نکتہ پیش کیا کہ انھیں ہندو اکثریت مساوی حقوق حاصل کرنے نہیں دے گی۔ ہندو قوم پرستوں نے مسلمانوں اور مسلم قوم پرستوں کے خلاف نفرت پھیلائی ، جو آنے والے وقتوں میں شدید فرقہ وارانہ کشیدگی و تشدد کی بنیاد بنی۔ فرقہ وارانہ تشدد کی شدت نے کانگریس کو بتدریج مجبور کیا کہ ملک کی تقسیم سے متعلق ماؤنٹ بیٹن کی تجویز (مارچ 1947ء) کو قبول کرلیا جائے۔
کانگریس نے اپنی قرارداد میں تقسیم ہند کو قبول کرتے ہوئے بیان کیا کہ اگرچہ وہ (ساورکر، جناح، گولوالکر۔ مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے) دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتی ہے مگر حالات (تب کے) کو دیکھتے ہوئے یہ کمتر بُرا معلوم ہوتا ہے، اُس فرقہ وارانہ دشمنی کے مقابل، جو قوم کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔یہاں بھی ’پارٹیشن پلان‘ کے معمار وی پی مینن نے نشاندہی کی کہ (سردار) پٹیل نے ہندوستان کی تقسیم کی تجویز دسمبر 1946ء میں قبول کرلی، جبکہ نہرو چھ ماہ بعد راضی ہوئے۔
مولانا آزاد اور گاندھی جی نے اس خیال کو کبھی قبول نہیں کیا، لیکن تیزی سے اُٹھتی فرقہ وارانہ لہر کے مدنظر اُن کو اس تعلق سے خاموشی اختیار کرنا پڑا۔ امیت شاہ۔ آر ایس ایس کی زبانی تاریخ جانیں تو کانگریس پر الزام آتا ہے کیونکہ کانگریس تحریک آزادی کی قیادت کررہی تھی، حالانکہ کانگریس نے مذہب کو قوم کی اساس قرار دینے کا خیال کبھی قبول نہیں کیا۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا