بیرسٹرحمید باشانی
بغداد ایک بارپھرجب خبروں میں آِیا تو میں نےسوچا کہ اب یہ کتاب پڑھ ہی لینی چاہیے۔ “بغداد: شہرامن، شہر لہو” نامی یہ کتاب کافی عرصے سے میں نےخریدرکھی تھی۔ مگرمجھےدوسری کتابوں اوردیگرمشاغل سےفرصت نہیں مل رہی تھی کہ اس کا مطالعہ کرسکوں۔ حالانکہ میں نے سن رکھا تھا کہ یہ ایک عمدہ کتاب ہے، جس میں بغداد کی قدیم ، جدید ، حیرت انگیزاورالمناک کہانی بڑی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے۔
اب جب بغداد سے بیک وقت بہت اچھی اور بہت بری خبریں آ رہی ہیں تو میں نے سوچا اس سے پہلے کے بغداد کی کہانی میں کوئی نیا موڑ آئے، یا کسی نئےالمناک باب کا اضافہ ہو جائےمجھے یہ کتاب پڑھ ہی لینی چاہیے۔
جسٹن ماروضی نے یہ کتاب لکھ کرپرانے محاورے کےعین مطابق دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ موجودہ دورمیں بغداد کےمصائب کو درست تاریخی تناظرمیں سمجھنے کے لیے شایداس سے بہتر کوئی کتاب انگریزی زبان میں دستیاب نہیں ہے۔
مصنف جس شہر کو امن کا شہر قرار دیتا ہے، بقول اس کےامن کے اس شہر نے صدیوں پہلے خون سے جنم لیا تھا۔ وہ خون جو پیغمبر اسلام کی بے وقت رحلت سے مسلمانوں کے دوفرقوں کے درمیان بہنا شروع ہوا۔ اسلامی ریاست کے پہلے دو خلفائے راشدین حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمر فاروق نے ایسی مہموں کی قیادت اور رہنمائی کی جن سے عرب ریاست نے باضابطہ طور پر ایک سلطنت کی شکل اختیار کی جوعرب دنیاسے باہر نکل کرفلسطین سیریا، میسوپوٹیمیا، ایران، مصر اور شمالی افریقا کے کئی ممالک تک جا پہنچی۔
ان دونوں خلفائے راشدین کے بعد مگرحالات نے نئی کروٹ لینی شروع کی۔ حضرت عثمان کی خلافت میں جو المناک واقعات رونما ہوئے ان میں خود ان کہ شہادت بھی تھی۔ مصر سے آئے ہوئے مسلح باغیوں نے مصر کے گورنر کی برطرفی کے سوال پرحضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ خلیفہ نے زندگیاں بچانے، اور خون خرابے سے بچنے کی خاطر اپنے دوستوں کو مزاحمت نہ کرنے کا حکم دیا۔ مگر مسلح باغی اس عظیم عمل کا کوئی لحاظ کیے بغیرگھرمیں داخل ہوئےاورخلیفہ کو شہد کر دیا۔ اسلامی ریاست میں یہ اس سطح پر خون خرابے کی سمت پہلا قدم تھا۔ آگے چل کرحالات اورزیادہ گھمبیراور واقعات اورزیادہ دردناک شکل اختیار کرتے گئے۔
اگلا دردناک واقعہ حضرت علی کی شہادت تھی۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کا خاتمہ ہو گیا۔ شام کے گورنرمعاویہ کے اقتدار پرفائز ہونے کے بعد چیزیں بالکل ہی نئےڈگر پرچل پڑیں۔ اسلامی سلطنت میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان رشتے بدلنے شروع گئے۔ انداز حکمرانی اور قیادت کا طریقہ کار بھی بدل گیا۔ بنو امیہ نے جو اہم فیصلے کیے ان میں ایک دارلحکومت کی دمشق منتقلی تھی، جس کے دور اثر نتائج ناگزیر تھے۔
بنو امیہ سے اقتدار جب بنوعباس کو منتقل ہوا توعباسی خلیفہ المنصور نے دمشق کے بجائےدارالحکومت دریائےدجلہ کے کنارے بسانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے بغداد شہرکا انتخاب اور تعمیر کیا۔ جگہ کا انتخاب اچھا تھا۔ بغداد سےمیسوپوٹیمیا کے دریائی نظام کےعلاوہ فارس کی شاہی سڑک، شاہراہ ریشم، بحیرہ روم اور بحرہند تک بھی رسائی آسان تھی۔ شہر تیزی سے پھیلنا پھولناشروع ہوا۔ ہارون الرشید کے وقت تک یہ شہر معاشی خوشحالی، ثقافتی ترقی، علم و فضل کے اعتبار سے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔
مگر اس وقت تک اسلامی حکمرانوں کے کردار و اخلاق میں بھی بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی تھی۔ اب وہ خلفائے راشدین کے کردار اور اخلاقیات سے ہٹ کر دوسرے ہم عصربادشاہوں کےاندازاطواراپنا چکے تھے۔ اس تبدیلی کا کھلا اظہارہارون الرشید کی شخصیت سے ہوتا تھا۔ ہارون جس کو عرب راتوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا تھا، اسے اس شہر کا عروج دیکھنا نصیب ہوا۔ اس نے بعض شاندار اور حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے۔ اس نے بیت الحکمت قائم کیا۔ اس کے دور میں بغدادعلم، ثقافت اورتجارت کے میدان میں اپنے عروج پرجاپہنچا۔
یہی وجہ ہے کہ ہارون کے دور کومتفقہ طور اسلامی سلطنت کا سنہری دورکہا جاتا ہے۔ مگر بغداد کو نظرانداز کرکہ ہارون نے دارلحکومت عرفات کے کنارے منتقل کیا، اوربغداد سے یوں لاتعلقی دکھائی کہ زندگی میں صرف ایک بار بغداد کادورہ کیا۔ ہارون کے بارے میں کہنے سننے کو بہت کچھ ہے۔ کئی دلچسب وعجیب واقعات ہیں۔ جوکئی مصنفین کےعلاوہ شیخ سعدی نے گلستان میں جمع کیے ہیں۔ مگریہ قصہ بغداد کا ہے اس لیےہارون کی کہانی پھر کبھی۔
بغداد دنیا کے ایک بڑے شہر کےطورپرزمانے کے کئی نشیب وفراز سے گزرا۔ اس شہر نے کئی بڑے دہشت ناک اورکئی خوش کن مناظر دیکھے۔ ان میں شاید سب سے ہولناک منظروہ تھا، جب ہلاکو خان کی فوج نے اس شہر کو تخت و تاراج کیا۔
نومبر1257 میں ہلاکو خان کی منگول فوج بغداد کی طرف بڑھی۔ شہر کا محاصرہ کرنے کے بعد ہلاکو نے بادشاہ سے ہتھیار پھینکنے کا مطالبہ کیا۔ خلیفہ المتعصم نے انکار کر دیا۔ مگر جیسا کہ تاریخ میں اکثر ہوتا ہے، ہلاکو کو کعبے کے اندر سے بت مل گئے۔ خلیفہ کےمشیرخاص ابوالقامہ نے خلیفہ کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ ایک ایسے موقع پرجب ایک بے رحم اور ظالم حملہ آور شہر کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ شہر محاصرے میں ہے، اور تاریخ کے بدترین قتل عام کا اندیشہ ہے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ فوج میں بغاوت ہو گئی۔
عین اسی وقت ہلاکو خان نے شہر پر ہلا بول دیا۔ خلیفہ نے تب مذاکرات کی کوشش کی، مگرشاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ صرف تیرہ دن میں شہرنے سرینڈرکردیا۔ منگول سپاہی شہرمیں داخل ہو ئے ۔ انہوں نے تباہی ، کشت وخون اور لوٹ مار کی ناقابل بیان مثالیں قائم کی۔ اسلامی ریاست کی تقریبا پوری فوج منگولوں کے چھوڑے ہوئے پانی میں ڈوب گئی یا قتل کر دی گئی۔ بغداد کی عظیم لاَئبریری کو جس میں طب سے لیکرعلم نجوم تک ہزاروں لاکھوں کتابیں موجود تھِیں کوتباہ کر دیا گیا۔
کتابوں کو اتنی تعداد میں دریائے دجلہ میں بہا گیا کہ ان کی سیاہی سے دریاکا پانی کالہ ہو گیا۔ منگول سپاہیوں نے مساجد، لائبریریاں، ہسپتال لوٹنے کے بعد جلا دیے۔ کئی عظیم الشان تاریخی عمارتوں کو جلاکرراکھ کردیا گیا۔ خلیفہ کو زندہ گرفتارکیا گیا۔ اسے اپنی شہریوں کے قتل عام اور لوٹ مار کو دیکھنے پرمجبور کیا گیا۔ مارکوپولو کے مطابق ہلاکوخان نے خلیفہ کوبھوکا رکھ کر مرنے پرمجبورکیا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق خلیفہ کو ایک قالین میں لپیٹ کراس کے اوپر گھوڑے دوڑائے گئےجس سے اس کی موت واقع ہوئی۔
یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا کہ منگول یقین رکھتے تھے کہ شاہی خون کا زمین پر گرنا بدشگونی ہوگی۔ ایک کے سوا خلیفہ کے تمام بیٹوں کو قتل کر دیا گیا۔ بغداد کو آبادی سے پاک کردیا گیا۔ بغداد کی تباہی کی یہ خوفناک داستان جب پھیلی تو گرد و نواح کی ریاستوں نےدوڑدوڑکرہلاکو خان کو اپنی وفا داریوں کا یقین دلانا شروع کیا۔ بغداد کی اس تباہی اوربربادی کے بعد اس کی تعمیر نو کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ منگول عملداری میں شہردوبارہ بسایا گیا۔ مگر علم و تہذیب کے جو خزانے لٹ چکے تھے، وہ دوبارہ کبھی بغداد کو نصیب نہ ہوئے۔
منگول دہشت اور بربریت میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو اسے ڈِیڑھ صدی بعد تیمور نے پورا کر دیا۔ اس نے منگولوں کا ریکارڈ توڑنے کے لیے کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے۔ اس نے ہر سپاہی کودو سر لانے کو کہا۔ اور ایک اندازے کے مطابق کھوپڑیوں کا یک بڑا مینار تعمیر کیا گیا جونوے لاکھ سروں پرمشتمل تھا۔ اس کے بعد ترکش شاہ سلمان اور فارسی شاہ عباس نے اس شہر کو تختہ مشق بنایا۔ یہ سلسلہ1831 میں انگریزوں کے حملے اور1917میں ترک خلافت کے خاتمے کے احوال سے بھرا ہے۔
مگر بغداد کی کہانی ہمارے دور میں پہنچ کر ایک نئی سطح کو چھوتی ہے۔ 1958 میں عراقی کے شاہی خاندان کا قتل بذات خود ایک ہولناک داستان ہے۔ اور پھر ظلم وتشددد کے وہ قصے ہیں جوصدام حسین سے منسوب ہوئے۔
گلف وار کی یاد ابھی تازہ ہے، جسے جدید تاریخ نویسوں کے مطابق بغداد شہر کو ہلاکوخان سے بھی زیادہ نقصان پہنچا۔ اس کےبعد گزشتہ دس پندرہ سالوں میں جو کچھ بغداد پر بیتی ہے وہ بھی ایک المناک قصہ ہے، جسے مستقبل کا مورخ لکھےگا۔ یہ تاریخ ہم سب پر بیتی ہے، ہم اسے شاید غیرجزباتی اندازمیں نہ لکھ سکیں۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہاہوں بغداد میں تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے۔ اس باب میں کیا لکھا جائے گا یہ چند دنوں میں واضح ہو جائے گا۔
♥