تنویر زمان خان۔ لندن
میں ابھی گذشتہ پندرہ بیس روز امریکہ میں گزار کر آیا ہوں۔ ایسا کم ہوتا ہے کہ امریکہ جانے کا دل چاہے۔ بس عزیز و اقارب کی خوشی غمی میں شریک ہونا ضروری ہوتا ہےکیونکہ یہ دنیا داری کا تقاضہ ہے ویسے تو عالمی سامراجیت اور غنڈہ گردی دیکھتے دیکھتے دل اتنا کھٹا ہو چکا ہے کہ امریکہ جانے کو دل ہی نہیں چاہتا۔خصوصاً پہلی بار اس کا احساس جارج بش کے زمانے میں ہوا جب نائن الیون ہوا تھا۔ اور ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاورز زمین بوس ہو گئے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں اس سانحے سے صرف دس روز قبل انہی ٹاورز کا اوپر سے نظارہ کرکے آیا تھا۔
ویسے تو اگر امریکہ کے مناظر آسمان کو چھوتی ہوئی عمارات اور ٹاورز بڑے بڑے شاپنگ مال ، چھ چھ آٹھ آٹھ لین کی سڑکیں بڑی بڑی گاڑیاں ہوائی اڈوں پر چمگاڈروں کی طرح چڑھتے اترتے جہازوں کے جھرمٹ، سڑکوں کے گرد پھرتے پرندے کے بڑے بڑے غول ،بازاروں میں ڈیجیٹل بتیوں اور اشتہاروں کی آنکھوں کے اپنے اپنے قدرتی مناظر، بڑے بڑے سمندروں کو بغیر کسی ستون کے دو کناروں کو ملاتے دلکش پل اور ہر پل پہ کئی منزلوں پر چلتی ریل گاڑیوں اور شہری ٹریفک نئی نئی قیمتی پتھروں سے بنی کئی یادگاریں ، کہیں ٹھاٹھیں مارتا سمند تو کہیں گرتے کئی کئی ہزار فٹ چوڑے پانی کے جھرنے ،۔
کہیں کبوتروں کی طرح ایک عمارت کے سر سے اڑ کر دوسری عمارت کے سر پر جا کر بیٹھتے امیر تاجروں اور افسروں کے ہیلی کاپٹر اور کسی کے گھروں کے پیچھے لنگر انداز بڑی بڑی لانچیں اور کسی کے پرائیویٹ ہوائی جہاز ، بازاروں میں ہر طرح کی بڑی بڑی دکانوں کے ساتھ اسلحے کی بھی دکانیں جہاں انسانوں کو مارنے کے لیے درست نشانے پر لگنے والی دوربین بندوقیں کہیں زندگی بخش مشروبات کی سینکڑوں اقسام میں انتخاب کہیں دنیا بھر کے مختلف خطوں کے رنگا رنگ طریقوں سے پہلے پکوان۔
اگر ان سب کو دیکھیں تو یوں لگے گویا کسی تصوراتی اور خوابوں کی دنیا کی بات ہو رہی ہے لیکن کیا کروں جب امریکہ کی عقابی اور دنیا کو چھین جھپٹ کر کھا جانے والی سیاست کی وجہ سے پھیلتی غربت افلاس اور بھوک کو دیکھتا ہوں تو مجھے اوپر بیان شدہ جنت کا منظر یوں لگتا ہے کہ گویا یہ سب ناتوانوں کے منہ سے لقمے چھین کے بنایا گیا ہے۔ یہ اربوں کھربوں کی معیشت کرہ ارض پر کی گئی لوٹ مار کا تحفہ ہے ۔ ان کی اینٹوں کو سیمنٹ سے نہیں بلکہ انسانی خون کے گارے سے جوڑا گیا ہے۔ بس پھر مجھے امریکہ اچھا نہیں لگتا اور اور دل ایک عجیب احساس تکلیف میں چلا جاتا ہے۔
ویسے بھی میں نے امریکیوں کے عام رویے امیگریشن والوں میں فرعونیت جیسی رعونیت سب اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکی سوسائٹی لاکھ ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ہے دو نمبر۔
عالمی معاملات میں تو خیر ان کی بات نہ ہی پوچھیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تو دنیا میں جہاں بھی جنگ و جدل کا ماحول ہو سمجھو پیچھے امریکہ ہے۔ تحقیق کرو تو یہ بات سچ ثابت ہو جاتی ہے ۔ عراق، افغانستان، شام لبیا، تیونس یمن وغیرہ یا دنیا کو کوئی بھی ملک جہاں پھڈاہو تو کھوجی کی پیڈ واشنگٹن اور پنٹا گون تک ہی لے جاتی ہے۔
خیر وہ ایک علیحدہ بحث ہے میں اپنے کچھ مشاہدات آپ کو بتاتا ہوں ۔ چندہی روز پہلے میں نیویارک کے ٹائم اسکوائر پر کھڑا تھا وہاں کا پیزا بہت مشہور ہے اور ہم کھڑے پیزا ہی کھا رہے تھے کیونکہ وہاں پیزا کھانے والوں کی بھیڑ اتنی تھی کہ بیٹھ کر کھانے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔
سامنے چاروں طرف سے آراستہ یاک رنگین بنایا گیا ٹرک کھڑا تھا جسے موبائل شاپ کی شکل دی گئی تھی۔ جس کے ایک حصے پر کاونٹر بھی بنا ہوا تھا ۔ ٹرک کے چاروں طرف ڈھیروں منشیات کے نام درج تھے لکھا تھا کہ وہ منشیات سے کئی مہلک اور جان لیوا بیماریوں کا علاج کرتے ہیں، ان میں چرس کوکین ویڈزاور نہ جانے کون کون سے نام تھے۔
میرے اندر تجسس بڑھا اور میں اس موبائل شاپ کے کاونٹر پر چلا گیا۔ وہاں ایک سیاہ فام نوجوان کاؤنٹر پر بیٹھا تھا۔ اسے معلومات کم تھیں البتہ ایسا ضرور احساس ہورہا تھا کہ وہ منشیات فروشی کے گاہک ڈھونڈ رہا ہے۔ گویا وہ منشیات کا کلینک تھا ور درپردہ منشیات کا دھندہ۔ ٹائم سکوائر دنیا کی چوبیس گھنٹے مصروف رہنے والی جگہ ہے جہاں ہر وقت دنیا بھر کے سیاح موجود رہتے ہیں ۔ میں سمجھا کہ نیویارک میں جہاں بندوق آسانی سے مل سکتی ہے وہاں منشیات پر کیسی قدغن ہو سکتی ہے۔
خیر میرے ساتھ موجود میرے ایک ساتھی نے قریب کھڑے پولیس والے سے پوچھا کہ کیایہاں منشیات کی فروخت قانونی ہے تو اس نے کہا نہیں یہ موبائل شاپ والے یہاں بیٹھے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔ اگر وہ اس طرح منشیات فروخت کرتا تو ہم اسے ابھی تک ہتھکڑی لگا چکے ہوتے۔ اس نے کہا یہ بے وقوف بنانا بھی تو جرم ہی ہے تو پولیس والے نے کہا کہ لوگ خود آکر دھوکہ کھاتے ہیں تو ہم کیوں روکیں۔
جس کا مطلب تھا کہ دھوکہ دینا جائز ہے لیکن دھوکہ کھانا حرام ہے تو درحقیقت یہی امریکی سوسائٹی کا اصل چہرہ ہے۔ دنیا کو اپنے فریب کے جال میں پھانسو اور اپنا کام چلاؤ کیونکہ قصور تو پھنسنے والے کا ہے۔ جو ان کی معتبری کے چنگل میں پھنس گیا ۔ دھوکا بھی کھایا اور مجرم بھی ٹھہرا ۔ مجھے یہ بات سمجھ نہ آئی کہ امریکہ دراصل ہے ہی جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ جنہوں نے کئی سوسال پہلے امریکہ کو مسکن بنایا اور آباد کیا۔مقامی لوگوں کو کروڑوں مین قتل کر دیا اور خود امریکی بن بیٹھے جو آج تک اسی دھونس کے مزاج سے چلتے جارہے ہیں۔ اکثریت ٹرمپ جیسی ہے۔ بس اسی لیے امریکہ نہ ہی متاثر کرتا ہے اور نہ ہی اچھا لگتا ہے۔
بشکریہ : جنگ لندن
One Comment