حبیب شیخ
میرے بچو! میرے پیارے بچو! تم میرے دشمن کیوں بن گئے ہو؟
میں اب بھی تم سے اسی طرح پیار کرتی ہوں اس دن کی طرح جب تم اس دنیا میں آئے تھے۔ تم غیر موجود سے موجود ہو گئے۔ تمہیں ایک توانا جسم چاہيے تھا میں نے تمہیں وہ عطا کر دیا۔ تمہاری ہر طرح کی ضرورت پوری کی ۔۔ خوراک، آب و ہوا، دھوپ اور آہستہ آہستہ تمہيں طاقت بخشی۔ پھر تم چلنے پھرنے دوڑنے تیرنے کے قابل ہوئے۔ میں نے تمہارے ذہن کی پذیرائی کی اور تم نے آگے بڑھ کر سمندر اور فضائیں تسخیر کر لیں اور اب کائنات کی جستجو کر رہے ہو۔ تمہاری پرورش کرنا میرا فرض تھا۔ میں اپنے بچو ں کی ضروریات اب بھی پوری کر رہی ہوں اور بخوشی کرتی رہوں گی۔
لیکن تمہاری بھی تو کچھ ذمہ داریاں ہيں!۔
میں تم سے کچھ نہيں مانگتی۔ پس ایک ہی التجا ہے کہ تم اپنے بہنوں بھائیوں کو اور مجھے نقصان نہيں پہنچاؤ۔
تم اپنی ماں کو یہ صلہ دے رہے ہو کہ تم نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے، میرے جسم کو زہر سے بھر رہے ہو ، مجھے بیمار کر رہے ہو۔
میری سمجھ ميں نہيں آتا کہ تم سب بہن بھائی آپس ميں کیوں جھگڑا کرتے ہو۔ بعض جانوروں کا لڑنا یا مارنا ان کی فطرت ميں شامل ہے لیکن تم تو عقل سے عاری نہيں ہو۔
تم میری طاقت کی طرف دھیان نہيں کرتے ميں جب چاہوں تمہيں سزا دے سکتی ہوں۔ جب مجھے غصہ آتا ہے تو تم میرے سامنے بے بس ہوتے ہو۔
میں تو اب بھی پانی کی آوازسے لوریاں دیتی ہوں۔ تمہارے گالوں کو ہوا کی سرسراہٹ سے چھوتی ہوں۔ تم کو پرندوں کے زریعے نغمے سناتی ہوں۔ لیکن تم نےمعاشی ترقی کو ماں بنا لیا ہے اور مجھے بھول گئے ہو۔
میں ہوں تمہاری ماں جو تمہيں پکار رہی ہے۔ میں تمہيں آغوش میں لینے کے لئے بے قرار ہوں۔ تم واپس آجاؤ۔ میں ہی تمہاری اصلی ماں ہوں میں تمہيں معاف کردوں گی۔
تمہاری دھرتی ماں
♦