تعارف و تبصرہ : لیاقت علی
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا ؟اس بارے ہمارے عمومی ڈسکورس میں بھارتی سازش اور بنگالیوں کی مبینہ غداری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ہمارے ہاں ان سیاسی، معاشی اور انتظامی زیادتیوں، نا انصافیوں اور امتیازی سلوک کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے جو مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی حکومتی اور فوجی اشرافیہ نے مشرقی پاکستان سے روا رکھا تھا۔
قیام پاکستان کے فوری بعد محمد علی جناح نے بنگالی کو ریاستی زبان کا درجہ دینے سے انکار کرکے بنگلہ دیش کے قیام کی پہلی اینٹ رکھ دی تھی۔ بعد ازاں جتنی بھی حکومتیں آئیں انھوں نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی نو آبادی کے طور پر ہی ٹریٹ کیا اور بنگالیوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کو طاقت کے بل بوتے پر بلڈوز کرنے کی پالیساں روا رکھی تھیں۔
مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کے حاکمانہ سلوک کی ایک جھلک مختلف ادوار میں مشرقی پاکستان کے گورنرز مقرر ہونے والی شخصیات کی فہرست میں نظر آجاتی ہے۔ اس فہرست میں شامل افراد کی اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان اور اکثر و بیشتر فوج سے ہوتا تھا۔پاکستانی فوج میں جنرل رینک کے افسر کو گورنر مقرر کیا جاتا تھا اور اگر کبھی کوئی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والا شخص گورنر بنا بھی تو ا س کے ساتھ ایک بریگیڈئیر منسلک کردیا جاتا تھا تاکہ وہ اس کی نگرانی کرتا رہے۔ ایوب خان کے دور میں عبدالمنعم خان گورنر مشرقی پاکستان تھے جب کہ بریگیڈئیر بعد ازاں میجر جنرل راو فرمان علی خان ا ن کے ساتھ بریگیڈ ئیر سول آفیئر ز تعینات تھے۔
بنگلہ دیش کے قیام کو نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن ہم آج بھی اس کی آزادی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارا پریس سقوط ڈھاکہ لکھ کر بنگلہ دیش کی آزادی کی نفی کرتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کو غدار اور فوج کے ہاتھوں ان کے قتل کو بنگلہ دیش کے قیام میں ان کے رول کی سزا قرار دیتا ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام اور اس میں مغربی پاکستان کی مقتدر اشرافیہ بالخصوص فوج کے کردار بارے بہت کم لکھا گیا ہے اور اگر کسی نے کچھ بھی لکھا ہے تو وہ بہت زیادہ یک رخہ ہے اور معروضی حقایق پش پشت ڈالتے ہوئے سارا الزام بھارت کی سازشوں اور آزادی پسند بنگالیوں پر لگایا دیاگیا ہے۔
بنگلہ دیش بارے بالخصوص دسمبر 1970 میں ہوئے انتخابات اور ان کے نتیجے میں ابھرنے والی سیاسی صورت حال، فوج کا کردار اور پھر آپریشن سرچ لائٹ اور بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کا احوال فوجیوں ہی نے لکھا ہے۔ فوجیوں کی لکھی کتابوں میں بھارت کو مطعون کیا گیا ہے اور اپنی بہادر ی اور ثابت قدمی کے قصے بیان کئے گئے ہیں۔ فوجی آپریشن سے منسوب بنگالیوں کے قتل عام اور بنگالی عورتوں کے ریپ کو دشمن کا پراپگینڈاا قرار دے کر مسترد کردیا گیاہے۔
’بچھڑ گئے‘ کرنل زیڈ۔آئی فرخ کی قیام مشرقی پاکستان، فوجی آپریشن اور بعد ازاں بھارت میں بطور جنگی قیدی گزرے دنوں کی کہانی ہے۔ اپنی اس خود نوشت میں کرنل فرخ نے فوجی نکتہ نظر ہی پرموٹ کیا ہے اور مطالعہ پاکستان سے خصوصی رغبت(انھیں یہ خود لکھا ہے) کی بنا پر بنگلہ دیش کے قیام کو بھارت کی سازش قرار دیا ہے۔
کیپٹن فرخ ستمبر 1970 میں ایسٹ پاکستان رائفلز میں تعیناتی کے لئے ڈھاکہ پہنچے تھے۔اس وقت ان کے وہم و گمان میں نہیں تھے کہ ان کی وہاں موجودگی کے دوران ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن جائے گا اور انھیں بھارت میں بطور جنگی قیدی ماہ و سال گذارنا پڑیں گے۔
ایسٹ پاکستان رائفلز نوے فی صد بنگالیوں پر مشتمل تھی لیکن چھ سات افسروں کے سوا اس کے تمام آفیسرز کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز میں تعیناتی کے دوران کیپٹن فرخ کو سنیئر افسروں کی زیر نگرانی کام کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے حالات کو بہتر طور پر جاننے کا موقع ملا، انھوں نے بغاوت( بنگلہ دیش کی تحریک آزادی) کو بنتے دیکھا۔ فوجی آپریشن میں حصہ لیا، پہلے مکتی باہنی اور پھر بھارت کے سات آٹھ ماہ تک براہ راست جنگ کا حصہ رہے۔ پاکستان فوج کی طرف سے سرنڈر کرنے بعد وہ سوا دو سال بطور جنگی قیدی بھارت کی قید میں رہے تھے۔
کرنل لکھتے ہیں کہ ستمبر 1970 میں مشرقی پاکستان پہنچے کے فوری بعد انھیں احسا س ہوگیا تھا کہ وہاں فضا خاصی مکدر ہوچکی تھی۔7 ۔دسمبر 1970 کے انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا تھا کہ بنگالی ہر صورت آزادی چاہتے تھے۔بنگالی عوام سال ہا سال کی جدوجہد کے بعد آزادی کے حصول کے لئے یکجا ہوچکے تھے۔ مغربی پاکستان میں اس حقیقت کا اگر کہیں ادراک تھا بھی تو اس کو عوام کی نظروں اوجھل رکھا گیا تھا۔
کرنل فرخ کے بقول مشرقی پاکستان میں چار جرنیل وائس ایڈمرل ایس۔ایم احسن، گورنرلیفٹیننٹ جنرل صاحب زادہ یعقوب علی خان،کمانڈر ایسٹ کمانڈ،میجر جنرل راو فرمان علی خان مارشل لا ایڈوائزر اور میجر جنرل خادم حسین راجہ جی۔ او۔ سی ڈھاکہ تھ کرتا دھرتا تھے۔ان چاروں جنرلز نے اسلام آباد کی مرکزی حکومت کو صاف لکھ دیا تھا کہ مشرقی پاکستان کے حالات اب صرف سیاسی حل کے متقاضی تھے اور کسی بھی طرح کا فوجی ایکشن ملکی مفاد میں نہیں تھا لیکن ان جنرلز کے مشورے پر عمل کرنے کی بجائے انھیں ان کے عہدوں سے ہٹادیا گیا اور ہم کوتاہ نظروں کے نعروں کے تابع ہوگئے تھے۔
کرنل فرخ لکھتے ہیں کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدیداروں،سیاست دانوں، دانشوروں،لکھاریوں اور عوام کامشرقی پاکستان کی صورت حال پر ردعمل غیر مناسب تھا۔ بظاہر لگتا تھا کہ وہ یحیی خان کی فہم و فراست پر اندھا دھند یقین رکھتے تھے اور صدر کے خاموش معاون بنے ہوئے تھے۔ دراصل مغربی پاکستان کے عوام اور سیاست دان اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ ماضی کی طرح ایک دفعہ پھر فوج مشرقی پاکستان کے عوام کو دبانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
کرنل کا دعوی ہے کہ انھوں نے مشرقی پاکستان اور بھارت میں بطور جنگی قیدی ساڑھے چار سالوں کی کہانی لکھی ہے اور خود کو کسی ایک موضوع تک محدود کرنے کی بجائے، میں نے جو خود دیکھا، خود جانا، میرے ساتھ جو گذری، بطور نوجوان افسر کس جگہ کیا جذبات تھے اور اتنے سال گذرنے جانے کے بعد ان واقعات کا کس طرح تجزیہ کرتا ہوں وہ سب ایماندار ی سے سپر د قلم کردیئے ہیں۔
کرنل موصوف نے اپنی اس خود نوشت میں اپنی فوجی اسائنمنٹس کی روائداد کے ساتھ ساتھ اپنی محبت کی کہانی بھی لکھی ہے جو اچھی خاصی طویل ہے۔ کرنل فرخ نے بھارتی فوج کے روبرو سرنڈر کا آنکھوں دیکھا احوال بھی لکھا ہے۔ جنرل جمشید نے کس طرح اپنے بھارتی ہم منصب کو سلیوٹ کرتے ہوئے جوانوں کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایات دی تھیں۔ماسوائے اکا دکا واقعات کے بھارتی قید میں پاکستانی فوجیوں کے ساتھ مجموعی رویہ ٹھیک تھا۔
پبلشر: جمہوری پبلیکشنز۔2۔ ایوان تجارت روڈلاہور،فون: 36314140
One Comment