بیرسٹرحمید باشانی
امریکہ نے ایران کےماضی سے کیا سیکھا؟ اورایران اپنے ماضی اور امریکیوں سے کیا سبق سیکھ سکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب ایران کی تاریخ میں ہے۔ ایران کی قدیم اورعظیم تاریخ کےکئی سنہرے ادوارہیں۔ عظمت رفتہ کے ان ادوار میں کئی شہنشاہ ، بادشاہ ، شاعر، ادیب اوردانشورگزرےہیں۔ اس طویل فہرست میں ایرانیوں کا وہ جدامجد بہت ہی نمایاں ہے، جس نےدنیا کی پہلی بڑی سلطنت تشکیل دی، اورجسےدنیا سائرس اعظم کےنام سےجانتی ہے۔
تاریخ پڑھنااوریاد رکھنا ایک ضروری اوربہت ہی مفید کام ہے۔ مگرگاہے یہ کام بڑا دردناک بھی ہوتا ہے۔ شاعرنے جب یہ کہا تھا کہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا تو شاید اسے بھی گزرے ہوئے کل کا کوئی حصہ کچھ اس اندازمیں یاد آرہا تھا، جواس کے لیےعذاب کی مانند تھا۔
سمجھ دار ایرانی جب اپنے عظیم ماضی کو یاد کرتے ہیں، تو یہ ان کے لیے ایک قسم کا عذاب ہی ہوتا ہے کہ ہم کیا تھے، اور کیا ہو گئے۔ ایرانیوں کا ماضی صرف شاندارنہیں تھا، بہت ہی شاندارتھا۔ مگرانہوں نے بدقسمتی سے اس سے سیکھا کچھ نہیں ۔ اس کے برعکس دنیا کے کئی ملکوں قوموں خصوصا مغربی ممالک نے یونان سے لے کرامریکہ تک ایرانیوں کے ماضی سے نہ صرف بہت کچھ سیکھا، بلکہ اسے نشان راہ بنایا۔
سکندرجسے ہم سکندراعظم کہتے ہیں، بچپن سے ہی سائرس کی شخصیت اوران کےکارناموں سے متاثر تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ سکندر کے بچپن کےوقت سائرس کے بارے میں زبانی یاتحریری طورپرجوکچھ بھی دستیاب تھا، اس نے پڑھ رکھا تھا یا سن رکھا تھا؛ چنانچہ سکندرکی شخصیت، سوچ اورخیالات پرسائرس اعظم کا گہرااثرتھا۔ کچھ تاریخ دان توسکندر کی فتوحات کا سہرا ہی سائرس کے سرباندھتے ہیں۔
سکندر نے اپنی فتوحات کے دوران دیگرریاستوں کے علاوہ خود سائرس اعظم کی بنائی ہوئی فارس کی سلطنت کوبھی فتح کیا۔ سلطنت کو تخت و تاراج کرنے کے بعد جب سکندرسائرس اعظم کے مقبرے پر پہنچا تو اس کا سر تعظیم سے جھکا تھا۔ اس عظیم آدمی کے مقبرے پرحاضرہونے کی یہ اس کی دیرانہ خواہش تھی۔ مگریہ خواہش خوشگوارحالات میں پوری نہیں ہوئی۔ مقبرے کو توڑ پھوڑاورلوٹ لیا گیا تھا۔ دل گرفتہ جرنیل نے یہ منظر بڑے افسوس سے دیکھا، ذمہ داران کو کڑی سزا دینے اورمقبرے کو مرمت کر کہ اپنی اصل حالت میں لانے کا حکم دیا۔
برطانیہ کےعجائب گھرمیں ایک سلنڈررکھا ہے۔ لگ بھگ 539 قبل مسیح میں سائرس نےقدیم بابل فتح کیا۔ اس نے یہ سلنڈربنانے کا حکم دیا، جوفٹ بال کے سائز کا تھا۔ اس سلنڈرپرجوکچھ لکھا گیااسےدوہزارپانچ سوسال بعد انسانی حقوق کا پہلاچارٹرقراردیا گیا۔ اس سلنڈرپردواحکامات درج تھے۔
پہلا یہ کہ سلطنت فارس میں سب کو مذہب کی آزادی ہے، جو چاہے جس چیز کی پوجا کرے۔ اوردوسرا یہ کہ جن لوگوں کو یروشلم سے جبراجلاوطن کیا گیا ہے، اور نکالا گیا، وہ واپسی کے لیےآزاد ہیں۔ یہ سلنڈربرطانیہ کےعجائب گھرمیں رکھا ہے، مگر یہ گاہے امریکہ سمیت دوسرے مغربی ممالک کے دورے پر بھیجاجا تا ہے، جہاں اس کو نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اس طرح دنیا انسانی حقوق کے باب میں ایرانیوں نے جو گراں قدر حصہ ڈالا اس سے آگاہ ہوتی ہے۔
امریکیوں نےایرانیوں کے ماضی اورعظمت رفتہ سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے سائرس اعظم کے بارے میں تحقیق و جستجو سے کام لیا۔ اس کا کہنا سننا اپنے پلے باندھ لیا۔ اس کے کچھ اصولوں اورخیالات کو مشعل راہ بنا کر اپنی طاقت اورعظمت میں اضافہ کیا۔ اس کے برعکس ایرانیوں نے اپنےعظیم ماضی سے کچھ سیکھنے کے بجائے اس دفن کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ انقلاب اورعقیدے کے نام پر اپنے ماضی کی ہرنشانی مٹانے کی کوشش کی۔ انسان حیرت وا فسوس سے سوچتا ہےایران کل کیا تھا، اورآج کیا بن گیا ہے۔ ذلت و زوال کا سفرابھی مکمل نہیں ہوا۔ یہی روش رہی توکون جانے کل فارس کے لوگوں کوکیسے کیسے دن دیکھنےنصیب ہوں۔
واشنگٹن ڈی سی کی سیرکے دوران انسان کو بہت کچھ دیکھنےاورسیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرآنکھیں اوردماغ کھلا و کشادہ رکھا جا سکے تو۔ یہاں گاہے ایک کتاب نمائش کے لیے رکھی جاتی ہے۔ اس کتاب کا نام سائرو پیڈیا ہے۔ سقراط کے شاگرد اورایک عظیم یونانی دانشورزینوفون نے یہ کتاب تین سو سترقبل مسیح کےارد گرد لکھی تھی۔ یہ کتاب1767 میں یورپ میں دو زبانوں یعنی لاطینی اوریونانی میں شائع ہوئی۔ کتاب کی جوکاپی نمائش کے لیے رکھی جاتی ہے، یہ ان دوکاپیوں میں سے ایک ہے ، جو تھامس جیفرسن کی ملکیت تھیں۔
عموما یہ کتاب امریکی کانگرس کی لائبریری میں رہتی ہے۔ اس کتاب میں سقراط کےاس ہم عصردانشوراورلائق شاگرد نے سائرس کی شخصیت اور طرزحکمرانی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مثالی حکمران کیسا ہوتا ہے۔ اور ایک مثالی سماج کیاہوتا ہے۔ یہ کتاب حقیقت اور افسانے پر مبنی ایک طرح کا سیاسی رومانس ہے، جس میں ایک حکمران کی تعلیم و تربیت اوراندازحکمرانی کا بیان ہے، جس نے ایک متنوع اور مذہبی طور پررنگ برنگےسماج میں رواداری سے حکومت کی۔
یورپ اورامریکہ میں نشاۃ ثانیہ کےدوران مختلف مغربی دانشوروں میں سائرس کے خیالات بہت مقبول رہی ہے۔ جن لوگوں نے1787 میں امریکہ کا آئین لکھا ان کے خیالات اور نظریات پر بھی سائرس کے گہرے اثرات تھَے۔ اٹھارویں صدی میں امریکہ کے بانیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ پرانے زمانےمیں ایک ایسی کامیاب ریاست کا وجود تھا، جس میں مختلف مذاہب اورثقافتیں موجودتھیں، وہاں پرمذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ کسی ایک مذہب کوغالب حیثیت حاصل نہیں تھی۔
امریکہ کی آزادی کے اعلان کے سوسال بعد سائرس کا سلنڈردریافت ہوا۔ لیکن تھامس جیفرسن جیسے لوگ جنہوں نے آزادی کا اعلامیہ لکھا، ان کے پاس سائرس کی زندگی اور زینوفون کا سائروپیڈیا ریفرنس کے لیے موجود تھا۔تھامس جیفرسن نے یہ کتاب بار بار پڑھی۔ ہرورق اورسطرپرحاشیہ تحریر کیا۔ شاید اسی لیے دوسری کاپی کی ضرورت پڑگئی کہ پہلی کاپی پر مزید نوٹ لکھنے کی جگہ نہ بچی تھی۔ اس نے اپنے خاندان کے دیگرافراد کو بھی یہ کتاب پڑھنے کی تاکید کی۔ اس نے اپنے پوتے کو ایک خط میں زور دے کر لکھا کہ جب تم یونانی زبان سیکھنا شروع کرو تو پہلی کتاب جو تم پڑھووہ سائرو پیڈیا ہونی چاہیے ۔
تھامس جیفرسن جیسے لوگوں کی وجہ سے کسی ایک مذہب کی غالب حیثیت کے بغیرتمام مذہب کی ازادی اوررواداری پر مبنی خیال اٹھارہویں صدی میں امریکہ نے قبول کرنا شروع کیا۔ چونکہ اس وقت تک کوئی ریاست امریکہ اور یورپ میں پوری طرح مذہبی رواداری نہ اپنا سکی تھی۔ پورے مغرب کے پاس یا تو برطانیہ کی طرح ایک ریاستی مذہب تھا، یاوہ فرانس کی طرح تمام مذاہب کے خلاف تھے۔
تھامس جیفرسن کےعلاوہ سکندراعظم اورجولیس سیزرجیسے لوگ بھی اس کتاب کے قدردان تھے۔ اس کے مصنف کو بہترین کلاسیکل لکھاری اورتاریخ دان مانا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زینوفون نے یہ کتاب افلاطون کی ریپبلک کے جواب میں لکھی تھی۔ جان ملٹن نے زینوفون کے کام کو افلاطون کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔
جو لوگ ایرانی زبان و ادب سے شناسا ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ ایران میں سائر وپیڈیا کے ساتھ کیا برتاو ہوا۔ عام آدمی تو ایک طرف کیا ایران کے دانشوروں نے سائروپیڈیا پڑھا ہے ؟ اگرایسا ہوتا توسماج پراس قدر قدامت پرستی اور رجعت پسندی کیسے مسلط ہوتی ؟
جن قوموں نے ترقی کی انہوں نے اپنی اور دوسری قوموں کی تاریخ اور اچھےتاریخی تجربات سے استفادہ کیا۔ ماضی کی اچھی روایات، خیالات ونظریات کو موجودہ دورکےمطابق رد وبدل کرکہ اپنایا۔ اس کے برعکس جو قومیں اپنے ماضی پرپشیمان ہوئی، انہوں نے ماضی سے اپنے تمام رشتے یک جنبش قلم ختم کر دیے۔ ماضی کی اچھی بری روایات کو ایک ہی خانے میں رکھ کر دیکھا۔ ان قوموں کے نظریات و خیالات میں ایک خاص قسم کا خلا ایک کھوکھلا پن واضح طورپردیکھاجا سکتا ہے۔
ایران کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ایران میں انقلاب کے نام پرمذہبی رواداری کے ہرتصور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ انسانی حقوق کے ہرتصورکی سرے سے نفی کر دی گئی۔ بنیادی حقوق اورشہری آزادیوں کو کچھ اس طریقے سےکچلا کہ جس کی مثال قدیم جابرانہ بادشاہتوں میں ملتی ہے، اورنہ ہی موجودہ دورکے بد ترین آمرانہ معاشروں میں اس طرح کا کوئی تصورموجود ہے۔
خلیج فارس والے اگر اپنے عظیم ماضی سے اورکچھ نہیں توشہری آزادیوں کا احترام اورمذہبی رواداری ہی سیکھ لیں تو یہ جدید دنیا میں ان کے لیے ایک عظیم اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔
♦