انڈین کمیونسٹ پارٹی 1920 میں تاشقند میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے دو بڑے بانی ایم این رائے اورابانی مکھر جی تھے۔ پارٹی کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد دونوں بانیان میں اختلاف ہوا اور ایم۔این رائے نے ابانی مکھرجی کو جھوٹ بولنے کا الزام لگا کر پارٹی سے نکال دیا تھا۔ پھر یہی کچھ ایم این رائے کا ساتھ ہوا جنھیں کمنٹرن نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر نکال دیا تھا۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی پی آئی) کی تاریخ کبھی نظریاتی اختلاف کے نام پراورکبھی شخصیات کے باہمی تصادم کی بدولت تنظیمی ٹوٹ پھوٹ سے بھری پڑی ہے۔اس وقت بھارت میں نوے کے قریب کمیونسٹ پارٹیاں موجود ہیں گو ان میں دو پارٹیاں سی پی آئی اور سی پی آئی(ایم) ایک وقت میں بڑی پارٹیاں رہی ہیں لیکن دن بدن یہ پارٹیاں بھی روبہ زوال ہیں اور2019 کے لوک سبھا الیکشن نے ان کی پارلیمانی طاقت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ساٹھ سے زیادہ لوک سبھا نشستیں رکھنے والی کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس اب صرف چھ ممبرز ہیں۔
بھارت میں تمام تر کمزوریوں اورتنظیمی ٹوٹ پھوٹ کے باوجود بڑی کمیونسٹ پارٹیوں کے انفراسٹرکچر قائم ہیں۔ دونوں پارٹیاں متعدد رسائل جرائد اوراخبارات شایع کرتی ہیں پارٹیوں کے بہت بڑے بڑے دفاترہیں۔ جن ریاستوں میں پارٹیاں کمزور عوامی حمایت رکھتی ہیں ان میں بھی پارٹی دفاتر فنکشنل ہیں۔
لیکن پاکستان میں معاملہ اس کے مقابلے میں بالکل الٹ ہے۔ یہاں لیفٹ کی سیاسی اورسماجی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیفٹ کے نام پر پارٹیاں کہلوانے والی پارٹیوں کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزوراوربعض صورتوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان پارٹیوں کی اکثریت کسی ایک شخصیت کے گرد قائم ہے اوراس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک وہ شخصیت اس پارٹی کے جملہ اخراجات برداشت کرنے کی سکت رکھتی ہے۔ان پارٹیوں کی نظریاتی سمت ہمیشہ نامعلوم رہتی ہے اور اکثر و بیشتر مارکس ازم کے کلاسیکی لٹریچر سے چند فقرے جگالی کرنے اور ماضی کی کمیونسٹ قیادت کے گن گانے کے ان کو اور کچھ کام کرنا نہیں آتا۔
لیفٹ میں انتشار و افتراق کس قدر ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں ہر دو سال بعد لیفٹ کی ایک نئی پارٹی بنتی ہے اور وہ پہلے سے موجود کسی دوسری پارٹی سے انضمام کرتی ہے۔ پھر ایک دوسال بعد انضمام کے نتیجے میں بننے والی یہ پارٹی مزید کئی دھڑوں اور گروپوں میں تقسیم ہوکر سفر آخرت پر روانہ ہوجاتی ہے۔لیفٹ پارٹیوں کے پاس کوئی دفتر ہے نہ کوئی انفراسٹرکچر نہ ان کے رسائل ہیں نہ کوئی پبلیکشنز۔نہ لیفٹ نہ مزدور انجمنوں میں اپنا اثر ونفوذ رکھتا ہے اور نہ ہی کسانوں میں اس کو کوئی پذیرائی حاصل ہے۔طالب علموں میں اکا دکا سٹڈی سرکلز ٹائپ گروپس موجود ہیں لیکن وہ بھی آپسی چھنیا جھپٹی کی نذر ہورہے ہیں۔ لیفٹ کی یہ پارٹیاں نئے کیڈرز بنانے کی بجائے ایک دوسرے کے کارکن توڑنے اورانھیں اپنے گروپ میں شامل کرنے میں لگی رہتی ہیں۔
ملک کے سیاسی منظر نامہ پر نہ کوئی اہمیت ہے اورنہ حیثیت۔ یہ کسی میٹرو پولیٹن شہر کے بلدیاتی اداروں کے الیکشن میں اپنے امیدوار تک نہیں کھڑا کرسکتے جیتنا تو دور کی بات ہے۔ یہ ایک دوسرے کو عظیم کہہ کر اپنی عظمت کا جواز پیدا کرتے رہتے ہیں۔لیفٹ سیاست جتنی محدود اور مختصر ہے اس سے کہیں زیادہ اس میں انتشار و افتراق ہے اور مستقبل قریب میں اس کے کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔
♦