پچھلے ہفتے ممتاز لکھاری و صحافی محمد حنیف واشنگٹن تشریف لائے تو پروگریسو پاکستان الائنس جو کہ امریکہ میں مقیم پروگریسو پاکستانیوں کی ایک فعال تنظیم ہے، کی روح رواں ڈاکٹر غزالہ قاضی،نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔
حاضرین کی عمومی خواہش تو یہ تھی کہ وہ پاکستان میں جاری سیاسی صورتحال سے آگاہی فرمائیں تو کہنے لگے کہ بھئ آپ تمام لوگ پڑھے لکھے ہیں ۔ جیو، اے آر وائی سمیت تمام چینلز دیکھتے ہیں تو پھر میری بات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ میں ایک لکھاری ہوں مجھ سے کتابوں کی بات کی جائے۔ دراصل انھوں نے حاضرین کی اس خواہش پر پانی ڈال دیا کہ وہ بھی پاک فوج کےسیاسی کردار پر لعن طعن کریں گے اور ہمیں تسکین ملے گی۔
اپنے انگریزی ناول اے کیس اف ایکسپلوڈنگ مینگوز (پھٹتے آموں کا کیس ) کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی گیارہ سال پہلے یہ ناول شائع ہوا تو میرے ایک دوست نے کہا کہ میں اس کا اردو ترجمہ کرنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا ست بسم اللہ ، ترجمہ ہوگیا تو ایک بزرگ دوست مجھے لاہور کے ایک بڑے پبلشر کے پاس لے گئے تو انھوں نے اسے شائع کرنے کی حامی بھر لی۔ لیکن جب ایک سال سے زائد عرصہ گذر گیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ ناول کب شائع ہو رہا ہے تو کہنے لگے کہ بھئی ناول میں کچھ فقرے قابل اعتراض ہیں اگر آپ انہیں نکال دیں تو ناول شائع ہو سکتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ کونسے فقرے قابل اعتراض ہیں تو کہنے لگے بھئی آپ سمجھدار ہیں خود ہی نظر ثانی کر لیں۔میں نے انھیں بتایا کہ کوئی دس سال پہلے انگریزی میں یہ ناول شائع ہو چکا ہے کسی طرف سے کوئی اعتراض نہیں آیا تو پبلشر بولے ہماری قوم کو بات دس سال بعد ہی سمجھ آتی ہے۔ نظر ثانی کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنے ہی لکھے ہوئے کو کاٹ دوں۔میرے بزرگ دوست نے مجھے کہا کہ اس کا مطلب فیر نہ ہی سمجھو۔
محمد حنیف کہنے لگے کہ میں نے یہ ناول کراچی میں مکتبہ دانیال کی حوری نورانی کو دیا جو ہماری دوست بھی ہیں اور ترقی پسند لٹریچر شائع کرنے کے حوالے سے ایک معتبر نام بھی ہے ۔انھوں نے بغیر کسی اعتراض اور کانٹ چھانٹ کے اردو ترجمے کو شائع کردیا ۔کوئی چھ ماہ گذرے کہ جنرل ضیا الحق کے بڑے بیٹے اعجاز الحق کی طرف سے مجھے اور پبلشر کو ایک ارب روپے کے ہرجانے کا نوٹس آگیاکہ اس ناول میں میرے والد صاحب کی بے عزتی کی گئی ہے ۔
نوٹس پڑھ کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ پچھلے گیارہ سال تو کوئی بے عزتی نہیں ہوئی لیکن اردو میں ناول شائع ہونے سے بے عزتی ہوگئی ہے۔ شاید انگریزی میں بے عزتی نہیں ہوتی اردو میں ہوتی ہے۔وہ بولے کہ ابھی نوٹس کا جواب تیار کر ہی رہے تھے کہ ایک دن چھاپہ پڑا اور تمام کتابیں ضبط کر لی گئیں اور ساتھ ہی ان دکانداروں کی لسٹ بھی مانگی گئی جن کو کتابیں فروخت کے لیے دی گئیں تھی۔ لاہور اور اسلام آباد کی بڑی دکانوں سے بھی یہ ناول اٹھا لیا گیا اور دکانداروں سے کہا گیا کہ ان گاہکوں کی لسٹ بھی دیں جنہیں ناول فروخت کیا گیا۔ تو دکانداروں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں کہ کس کس نے ناول خریدا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سرگودھا یونیورسٹی کا شعبہ پنجابی اس ناول کا پنجابی میں ترجمہ کر رہا ہے لیکن اس واقعے کے بعد وہ اسے مکمل کرتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
میڈیا پر سنسر شپ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ میڈیا میں ہر دور میں پابندیاں عائد رہی ہیں لیکن اب تو ہمارے سنئیر ساتھی بھی یہ کہہ رہے کہ آج میڈیا پر جو سختیاں ہو رہی ہیں وہ پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ سنسر کا طریقہ کارجدید اور بے رحم ہو گیا ہے۔ مالکان کو اوپر سے ایک حکم آتا ہے تووہ صحافی کا روٹی پانی بند کردیتے ہیں۔ ایسا پہلے نہیں ہوتا تھا۔میڈیا مالکان چار چار ماہ تک کارکنوں کو تنخواہیں ادا نہیں کرتے اور کارکن اس لیے کام کرنے پر مجبور ہیں کہ اگر وہ نوکری چھوڑیں گے تو پھر چار ماہ کی تنخواہ نہیں ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ کارکن صحافی بھی بانڈڈ لیبر کا شکار ہو گئے ہیں لیکن کوئی احتجاج بھی نہیں کر تا ۔ پاکستان میں بانڈڈ لیبر شاید بھٹہ مزدوروں کو ہی سمجھا جاتا ہے۔
لاپتہ افراد کے متعلق انھوں نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ ہم سمجھتے تھے کہ بلوچستان ملک کا ایک دور دراز کا علاقہ ہے جہاں سے کچھ جوان لاپتہ ہوجاتے تھے مگر پھر پتہ چلا کہ سندھ میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے اور خیبر پختونخواہ میں بھی۔ عمومی طور پر سمجھا جاتا تھا کہ ریاست جن لوگوں کو اغوا کرتی ہیں وہ لوگ شاید اللہ رسول یا ملک سے محبت نہیں کرتے۔ لیکن ایسا نہیں۔ خیبر پختونخواہ سے بہت بڑی تعداد لاپتہ ہوگئی ہے جو اللہ رسول سے محبت بھی کرتے ہیں اور ریاست سے بھی ۔ لیکن انھیں اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر ان کا جرم بھی نہیں بتایا جاتا۔
انھوں نے بتایا کہ اب تو پنجاب سے بھی لوگوں کو اٹھایا جانے لگا ہے۔ انھوں نے اپنےشہر ، اوکاڑہ ، کے ایک نوجوان ، مہر عبدالستارکے متعلق بتایا کہ وہ ان چند نوجوانوں میں سے ایک ہے جو پڑھ لکھ گیا۔ اس نے ایم اے کیا اور کئی سالوں تک اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے کام کر تا رہا اخر ایک دن اسے پکڑ لیا اور اسے جیل میں بھی ہتھ کڑیاں لگا کر رکھا گیا، جس پر عاصمہ جہانگیر نے عدالتی لڑائی لڑ کر اس کی جیل میں ہتھکڑیاں اتروائیں اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ اس کی ہتھکڑیا ں اتر گئیں ہیں وہ اسے جیل میں بھی ملیں۔
انھوں نے کہا کہ بلوچ، سندھی اور پختون تو لاپتہ ہیں اور ریاست ان کا جرم بھی نہیں بتاتی لیکن مہرعبدالستار قانونی طورپر قید ہے اور اپنا مقدمہ عدالتوں میں لڑرہا ہے۔اس وقت مہر ستار پر ریاست سے بغاوت سمیت اڑتیس قسم کے کیس دائر ہیں اور وہ مسلسل عدالت میں اپنی ضمانت کرانے میں مصروف ہے جتنے اس پر کیس ہیں مجھے نہیں لگتا کہ وہ اپنی زندگی میں رہا بھی ہو سکے۔
محمد شعیب عادل