جبری گمشدگیوں کا رجحان ایک عالمگیر مسئلہ ہے، خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں ابھرتے ہوئے تحریکوں کو دبانے کیلئے ان تحاریک کے متحرک کارکنان کو اغواء کرکے لاپتہ کرنے کا رجحان عمومیت اختیار کرچکی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں یہ مسئلہ خطرناک حد تک نمایاں نظر آتا ہے کیونکہ ایسے ممالک میں آئین کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور پردے کے پیچھے سے کام کرنے والی اسٹبلشمنٹ کے اختیارات لامتناہی ہوتے ہیں، جو بآسانی کسی بھی حکومت کو توڑ یا جوڑ سکتی ہے۔
یہی رحجان بلوچستان میں بھی جاری ہے جہاں آزادی پسند سیاسی کارکنان، طلباء رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دو دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ گذشتہ دہائی کے اوائل میں زیادہ تر جبری طور پر لاپتہ افراد خفیہ اداروں کے تحویل میں چند ماہ تفتیش کے عمل سے گذر کر رہا ہوجایا کرتے تھے، لیکن سنہ 2008 کے بعد سے ایسے لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملنا شروع ہوگئیں۔
جیسے جیسے سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گمشدگیوں میں تیزی آنے لگی، ویسے اس عمل کے خلاف احتجاج نے بھی شدت پکڑی۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم ان لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے گذشتہ دس سالوں سے مسلسل احتجاج کرتے آرہی ہے۔ اسی صورتحال کا جائزہ حالیہ دور 2019۔20 میں لیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آج تک لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، اور آج تک کبھی زندہ اور کبھی مردہ منظر عام پر نمودار ہوتے ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ اب بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے پاکستان کے سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے پالیسی میں ایک تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔
پالیسی کی یہ تبدیلی، بلوچ لاپتہ افراد کو پاکستان کے مرکزی اسمبلی میں بیٹھے سیاسی پارٹیوں سے سودے بازی کیلئے استعمال کرنا ہے تاکہ مختلف قانون سازی کے عوامل میں انکی وفاداریاں حاصل کی جاسکے۔ اس امر کی تصدیق مذکورہ قوم پرست پارٹی مختلف مقامات پر کرچکی ہے کہ انہوں نے مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت اس لیے کی ہے تاکہ کچھ لاپتہ بلوچ بازیاب کرائے جاسکیں۔ ایک اور موقع پر انہوں نے حالیہ آرمی ایکٹ کی حمایت کی وجہ بھی مزید چند لاپتہ افراد کی رہائی ظاہر کی ہے۔
ان خاندانوں کے خوشی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جن کے عزیز سالوں لاپتہ رہنے کے بعد منظر عام پر آتے ہیں، جنہیں اس بات سے پھر کوئی سروکار نہیں رہتا کہ کوئی سیاسی پارٹی بدلے میں کس طرح کے بِل کی حمایت کررہا ہے۔ لیکن، یہ بلوچستان میں دستور نہیں بننا چاہیئے، ایسے عمل کی مخالفت ہونی چاہیئے، یہ ایک غیرانسانی عمل ہے کہ چند ووٹوں کیلئے انسانوں کی زندگیوں کی سودے بازی کی جائے۔ انسانی حرمت کی ایسی تذلیل کی مثال کالونیل دور میں بھی نہیں ملتی۔
جو لاپتہ بلوچ رہا ہوئے ہیں، انکے بارے میں ابتک کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں ہیں کہ انہیں کس جرم میں سالوں غائب رکھا گیا تھا، اور جو بھی جرم تھا، اسکا کفارہ آرمی ایکٹ بِل یا تحریک انصاف حکومت کی حمایت سے کیسے ہوگیا۔
بلوچ قوم پرست جماعتوں کو ایسے سودے بازیوں سے دور رہنا چاہیئے، کیونکہ اس طرح فورسز کو شے ملے گی کہ وہ مزید بیگناہ بلوچ طلباء اور کارکنوں کو اغواء کریں۔ انہیں جب بھی ان قوم پرست جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پڑی تو وہ سودے بازی کیلئے کسی بھی بلوچ کو اٹھالیں گے۔
اس طرز کی سودے بازیاں عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے عیاں کرنی چاہیئں، تاکہ وہ انسانی زندگی کی قیمت کی اس تذلیل کی مذمت کرسکیں اور اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈال سکیں کے لاپتہ بلوچوں کو بلامشروط انسانی حقوق کے بنیاد پر رہا کیا جائے، بجائے انکے زندگی کو سودے بازی کیلئے استعمال کرنے کے۔
دی بلوچستان پوسٹ