ڈی اصغر
ہمارے ہمالے سے اونچے اور شہد سے میٹھے دوست، چین کے ہاں کچھ غیر روایتی چیزیں کھانے کا رحجان عرصہ دراز سے ہے۔ ہم کے ٹھہرے دوستی اور لحاظ کے بوجھ تلے دبے کہ، ان کو ان اشیا سے باز رکھنے کی کوئی سبیل کرنے سے قاصر۔ کوئی اٹھارہ انیس برس قبل بھی وہاں سانسوں کی بیماری پھیلی تھی جس نے کافی جانیں لی تھیں۔ یاروں نے اس وبا کا نام “سارس” رکھا تھا۔ اب کی بار پھر اس نے سر اٹھایا ہے اور لوگ باگ اسے “کروناوائرس” کہہ رہے ہیں۔ پھر سے وہی سانس کی بیماری جو کئی جانیں اب تلک ۔لے چکی ہے۔ سائنس دان اس کے تدارک کا ٹیکا ایجاد کرنے کے لئیے سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ اڑانے والوں نے یہ بھی اڑائی ہے کہ غالبا چمگادڑ کے سوپ سے اس وائرس کے پھیلنے کی کڑی جا ملتی ہے۔
امریکہ کے ان ہوائی اڈوں پر جہاں چین سے مسافروں کی آمدورفت بہت زیادہ ہوتی ہے، اسکینر لگائے گئے ہیں کہ جانچ ہوسکے کہ کس مسافر میں اس وائرس کی موجودگی ممکن ہے۔ اسی طرح حفظ ماتقدم کے طور پر دنیا کے کئ دوسرے ممالک نے بھی اپنے ہوائی اڈوں پر احتیاطی تدابیر شروع کردی ہیں۔ کئ ممالک نے اپنے شہریوں کو چین کے سفر سے منع کر دیا ہے۔ یقینا اس کی وجہ سے چین کی سیاحت اور بالخصوص معیشت متاثر ہوئی ہے۔
دنیا کے بہت سارے ممالک نے اپنے چین میں مقیم شہریوں بالخصوص ووہان شہر جسے اس وبا کا ایپی سینٹر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے اپنے شہریوں کے انخلا کے اقدامات شروع کردئیے ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت نے باقاعدہ اپنے ملک میں ایک حفاظتی چیمبر تشکیل دیا ہے جہاں ان لوگوں کو بطور حفاظت محصور کیا گیا ہے۔ دیگر پڑوسی ممالک سری لنکا اور بنگلہ دیش، نے بھی اپنے طلبا جو چین کے ووہان شہر میں مقیم تھے ان کو وہاں سے خصوصی فلائٹس کے ذریعے نکالا ہے۔ ان فلائٹس کے عملے نے تمام حفاظتی ملبوسات زیب تن کر رکھے تھے تاکہ انہیں مسافروں سے وہ وائرس نہ لگ پائے۔
قیاس یہی ہے کہ ان ممالک نے بھی بھارت کی طرح ان مسافروں کو وقتی طور پر محصور کرنے کے اقدامات کر رکھے ہوں۔
پاکستان کے کافی طلبا اس متاثرہ شہر میں مقیم ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ حکومت پاکستان سے داد فریاد کرتے پائے جاتے ہیں کہ، ان کو بھی بحفاظت وہاں سے باہر نکالا جائے۔ حکومت وقت نے کمال بے حسی کے ساتھ، یہ موقف اختیار کیا ہے کہ، چینی حکام نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ ہمارے طلبا کو “اپنا” سمجھ کر ان کی حفاظت کریں گے۔ بطور ملک ہمارے پاس ایسے وسائل یا ذرائع نہیں کہ ہم اس وبا کا مقابلہ کرسکیں۔ سو اس لئیے بہتر ہے کہ ان طلبا و طالبات کو وہیں رہنے دیا جائے۔
حکومتی وزرا کمال ڈھٹائی سے اپنے اس ظالمانہ اقدام کا دفاع بھی کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ان طلبا نے سفارت خانے میں فون کر کے حکومت کے اس “احسن” اقدام کی تعریفیں کی ہیں اور خصوصی شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ کئ بے حث تو یہاں تک کہہ گئے کہ “موت تو برحق ہے کہیں بھی آسکتی ہے۔“
آئین کی رو سے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر براجمان، صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی نے بھی حدیث مبارکہ کا حوالہ دے کر ان طلبا کو ووہان ہی میں مقیم رہنے کی تلقین کی ہے۔ کاش کہ صدر محترم کی اپنی آل اولاد اس وقت ووہان شہر میں پھنسی ہوتی تو پھر دیکھتے کہ موصوف انہیں کیا فرماتے۔ یہاں تاثر یہی ہے کہ سی پیک کے احسان کے بوجھ تلے پاکستان اور اس کے اوپر چین کے مالی مقروض پاکستان کے پاس، اتنی ہمت اور استطاعت نہیں کہ اپنے محسن چین کو ناراض کرسکے۔ لہذا جو ہو سو ہے کی بنیاد پر چین کے حکم کو بجا لایا جائے۔
اب تمام جذباتیت سے قطع نظر، خالصتا منطقی بنیادوں پر اس مسئلے پر غور فرمائیے اور خود سے سوال کیجئیے کہ، کیا اپنے شہریوں کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے کہ نہیں؟ پاسپورٹ پر درج حکومتی ذمے داری ہے کہ اپنے شہری جو غیر ممالک میں بوجہ تعلیم یا روزگار مقیم ہوں ان کی ہرممکن حفاظت کرے اورانہیں بوقت ضرورت انخلا میں ضروری مدد فراہم کرے۔
دوم کیا پڑوسی ممالک بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے پاس وہ تمام وسائل موجود ہیں جواس وبا کی مکمل روک تھام کرسکیں؟ حکومت کو ان ممالک کی طرح اپنے شہریوں کے انخلا کا فی الفور انتظام کرنا چاہئے۔ ملک میں بھی ان ممالک کی طرح حفاظتی چیمبر ہنگامی بنیادوں پر تشکیل دیا جانا چاہئے۔ اگر ایسا کرنے سے حکومت اجتناب برتتی ہے تو نہ صرف عالمی سطح پر یہ باعث شرم ہے بلکہ یہ ریاست کے عمرانی معاہدے سے صریح انحراف ہے۔
♥