پاکستانی ڈرامہ،سرمایہ دار اور عوام کا احساس کمتری

آمنہ اختر

کیا پاکستانی ڈرامے  عوام میں غیر سنجیدہ  روئیے اور احساس کمتری کو پروان چڑھا رہے  ہیں؟یا یہ ڈرامے معاشرے کو بہتر راہ پر لانے کے لئے ہیں  ،یا   مردوں اور عورتوں میں تفرقہ  کو برقرار رکھنے  اور انہی بوسیدہ  روایات اور ریتوں کو اگلی نسل میں منتقلی کے لیے سوچے سمجھے طریقے سے  بنائے اور دکھائے جا رہے ہیں ؟

ڈرامہ میں کسی  بات یا واقعے کو دکھانے کے لئے ایک ماحول بنایا جاتا ہے جس کے اندر کردار اپنے انداز ،لباس ،زبان اور جسمانی حرکات سے اس کہانی یا واقعے کو بیان کرتے ہیں ۔ یعنی سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈرامہ اگر سو فیصد سچائی پر مبنی نہیں ہوتا تو سو فیصد جھوٹ پر بھی مبنی نہیں ہونا چاہئے ۔ یعنی اسی معاشرے کی تصویر ہوتی ہے ۔ ڈرامہ لوگوں کے مسائل پر مبنی ہوتا ہے جن سے وہ روزمرہ زندگی میں سامنا کررہے ہوتے ہیں ۔غرض کہ انسانی تخیلات   کتنے بھی خیالی ہو جائیں پھر بھی قدرت کے نظام کے  احاطے کےاندر ہی  رہ کر کوئی تخلیق کر  پاتے ہیں۔

ڈراموں کی ابتدا قدیم یونان  سے  ہی ہوئی ہے ۔وقت کے ساتھ ڈرامے نے نہ صرف یونان سے باہر  کی د نیامیں پذیرائی پائی بلکہ ڈرامے کے میڈیم  کو معاشرے کی اصلاح  کے لیے بھی استعمال کیا جا نے لگا۔اس بحث سے قطع نظر کہ ڈرامہ برصغیر پاک و ہند میں کیسے پہنچا ہے ۔1947 کی تقسیم ہند کے بعد وجود میں آنےوالے پاکستان میں ڈرامہ بہت شوق سے دیکھا جا تا رہا ہے ۔اسی لیے پاکستان میں ڈرامہ نے ہمیشہ ہی فلم کی نسبت دیکھنے والوں  زیادہ  کے دل و دماغ  میں جگہ  بنائی ہے ۔

ڈرامے کے برعکس پاکستانی فلم زبان،کہانی اور کردار کے لحاظ سے ایک چربہ ہی رہی ہے ۔  مگر پاکستانی فلم کے مقابل انڈین فلم  نے  نہ صرف پاکستانی سینما گھروں بلکہ عام پاکستانی کے دل میں بھی اپنا سکہ منوایا ہے ۔اسی کے ساتھ پاکستانی اور بھارتی عوام اس بات سے انکاری نہیں کہ  پاکستانی ڈرامہ کو ہمسایہ ملک انڈیا میں بہت پذیرائی ملتی  رہی ہے ۔

سنہ70 سے 90 تک کی دہائی تک کے پاکستانی ڈرامے  میں چونکہ  جدیدد نیا کو اچھے الفاظ میں دکھایا نہیں گیا تھا ۔مگر ڈراموں کے  کردار کی معاشی صورت حال کو اس کے اردگرد   کے ماحول اور لباس سے  ہم آہنگ کر کے ڈرامے میں جان ڈالی جاتی تھی ۔گو کہ ڈرامے میں جاگیردار اور اس کے  طالمانہ نظام کی عکاسی تھی یا پھر زیادہ بچوں کی وجہ سے ہونے والے مسائل اور نرینہ اولادکے پیدا ہونے کی چاہت وغیرہ  پر مبنی تھے ۔مگر  دیکھنے والوں کو احساس کمتری کا احساس نہیں تھا ۔اور نہ ہی سرمایہ دار کی  زبان  اور سرما یہ داری اس قدر ڈراموں میں غالب تھی کہ پتہ ہی نہ چلے کہ یہ ڈرامہ واقعی   اپنے معاشرے کی عکاسی کر رہا ہے یا باہر کی دنیا کے خیالات کو چربے کی شکل دے کر سوائے پیسے بنانے کے  کچھ اور  نہیں ہے ۔

جب سے دنیا  ایک گلوبل ولیج بنی ہے اورٹیکنالوجی کی ترقی سے انسان کی جان کاری بڑھ رہی ہے ۔ مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ دار کی اور بھی چاندی ہو گئی ہے ۔وہ  امیر دنیا کی آزادی  اور جمہوری عمل میں آئی تبدیلیوں کو  پاکستان کی  تھکی ماندی اور بد حال عوام  کو انہیں کے بوسیدہ  رواج اور روایات اور انہیں کا بول بلا رہے کو دکھا  کر خود  پیسہ بنا   رہا ہے ۔امیر لوگ ،شاہانہ گھر اور زندگی ،مختلف  اور مہنگے لباس  و زیورات کی تشہیر ،مہنگے زیورات دینے والے  عاشقوں ،یورپ   اور دوسرے امیر ملکوں کے خواب دکھانے والے سسرال والوں   وغیرہ سے متوسط درجے اور غریب مرد اور عورت کو احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں ۔مگر یہی سرمایہ دار  تیسری دنیا کی تکلیف زدہ صورت حال کو  فلموں اور ڈراموں کی صورت میں امیر اور صنعتی  ملکوں کے سینما گھروں میں دکھا کر یہاں بھی پیسہ اور ہمدردیاں بٹور رہا ہے ۔

جس ملک کی 29،5٪آبادی     غربت کی لائین سے نیچے رہ رہی ہو اورماحول کی آلودگی  نہ صرف سانس لینے میں تکلیف کا باعث  بلکہ بینائی اور سماعت کو بھی متا ثر کر رہی ہو ،جہاں تعلیم صرف ایک خاص طبقے کو مل رہی ہو ،روزمرہ کی اشیاہ تک عام شہری کی رسائی  میں نہ ہوں ۔ وہاں  اعلی شاندار لباسوں میں ملبوس کرداروں کو اور  بڑے بڑے محلوں اور ہوٹلوں میں فلمائیے ڈراموں  سے عوام کو احساس کمتری کی بیماری میں مبتلا کرنا نہیں تو اور کیا ہے ۔

  بد نصیبی تو یہ ہے کہ عوام بھی  ایسے ہی ڈراموں سے خوش ہیں مگر اس کے باوجود فیصلہ توپھر بھی  عوام کے ہاتھ میں  ہی ہے کہ وہ ایسی ہی  احساس کمتری محسوس کروانے والی تفریح چا ہتے ہیں یا کچھ منفرد   جو ان کی  ذہنی اور جسمانی صحت  کو بہتر کر سکے ­؟

Comments are closed.