لیاقت علی
کشمیر سے یک جہتی کے نام پر 5فروری کو چھٹی کرنا اور ریاستی پراپیگنڈے اور وسائل سے جلسے جلوس کرنے کی ابتدا بھٹو نے کی تھی۔ شملہ سمجھوتے کے بعد اپوزیشن نے بھٹو پر کشمیر پر سودے بازی کے الزامات عائد کئے۔چنانچہ اپوزیشن کے اس پراپیگنڈے کے اثرات کے زائل کرنے اور خود کو کشمیر کاز کا چمپئین ثابت کرنے کے لئے بھٹو نے فروری ( میری یادداشت کے مطابق 28فروری) کو کشمیر سے یک جہتی کی کال دی تھی ۔ جو بعد میں ترک کر دی گئی۔
پانچ فروری کو کشمیر ڈے منانے کی روایت کا آغاز اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی ٰنواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی دشمنی میں کیا تھا۔ نواز شریف نے فوجی جنتا کے زیر اثر، وزیر اعظم بے نظیر کے خلاف کشمیر پر سودے بازی کے الزامات عائد کئے اور بطور وزیر اعلیٰ پنجاب 5 فروری کو پنجاب میں کشمیریوں سے یک جہتی کی کال دی تھی۔
بے نظیر بھٹو کو بھی باامر مجبوری وفاقی سطح پر نواز شریف کی اس کال کی تائید کرنا پڑی تھی۔ اب صورت حال ہے کہ ہر سال 5 فروری کو کشمیر کے نام پر پاکستان کے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی شدید معاشی بحران کا شکار ہے اپنے اوقات کار بلا کسی جواز کےضائع کررہا ہے۔
درحقیقت بھارت دشمنی کا چورن قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہماری حکمران اشرافیہ نے بیچنا شروع کردیا تھا۔مقصد ایک ہی تھا کہ حب الوطنی کے سطحی جذبات ابھار کر عوام کوبے وقوف بنایا جائےتاکہ وہ اپنے حقیقی معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کے لئے جدوجہد نہ کرسکیں۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی سالوں میں بھارت دشمنی کی اس پالیسی کے معماروں میں لیاقت علی خاں، میجر جنرل اسکندر مرزا ، ملک غلام محمد اورچوہدری محمدعلی نمایاں تھے۔ لیکن چند سال بعد بھارت دشمنی کے اس نسخہ کیمیا کو ہماری خاکی کمپنی نے اچک لیا اور آج تک وہ اس کی پڑیاں بیچنے میں مصروف ہے اور ہر سماجی سیاسی اور معاشی بیماری کا حل اسی میں ڈھونڈتی ہے۔قرائن سے لگتا ہے کہ اس حکمت کی یہ دکان اگلے کچھ سال تک نہ صرف چلتی رہے گی بلکہ اس سے منافع بھی تسلی بخش ملتا رہے گا۔
بھارت دشمنی کے حوالے سے ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ جن فوجی اور سول حکمرانوں نے بھارت دشمنی کو بام عروج پر پہنچایا انھوں نے ہی بھارت سے سمجھوتے اور معاہدے بھی کئے تھے۔جنرل ایوب خان نے کشمیر کے حصول کے لئے آپریشن جبرالٹر لانچ کیا لیکن کشمیر تو کیا ملتا الٹا 1965 کی جنگ گلے پڑگئی ۔
جنرل ایوب خان نے قرون اولی کے مجاہدین کی طرز پر جہادی لفاظی سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے بھارتی کفار پر ٹوٹ پڑنے کا نعرہ لگایا لیکن صرف سترد دنوں بعد ان کا جذبہ جہاد سرد ہوگیا اور سوویت یونین کے توسط سے معاہدہ تاشقند کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔ بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو پاکستان کے مفادات کاسودا قرار دیا تھا گو بطور وزیر خارجہ انھوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی اس معاہدے کا بھرپور دفاع کیا تھا اور اسے پاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ قرار دیا تھا۔
بھٹو نے جنرل ایوب خان کے خلاف اپنی سیاسی مہم کا بنیادی پتھر تاشقند معاہدہ کے ذریعے، جسے ان کے نزدیک پاکستان کے مفادات کا سودا کیا تھا، کو قرار دیا تھا۔ وہ اپنی ہر تقریر میں معاہدہ تاشقند کے راز افشا کرنے کا وعدہ کرتےتھے اور اسے پاکستان کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔پنجاب میں ان کی سیاسی مہم کا اہم جزو بھارت دشمنی اور معاہدہ تاشقند تھا۔ لیکن جب خود برسر اقتدار آئے تو انھوں نے بھارت سے شملہ معاہدہ کرلیا تھا۔
جنرل ضیا نے جب مارشل لا لگایا تو انھوں نے بھٹو پر بھارت دوستی کے الزامات عائد کئے تھے لیکن جوں ہی موقع ملا کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر راجیو گاندھی کے قدموں میں جاکر بیٹھ گئے تھے۔جنرل ضیا کی موت کے بعد بھارت دشمنی کا پرچم نواز شریف نے اٹھایا تھا۔
نواز شریف نے سکھوں کی فہرست بھارت کو دینے اور راجیو گاندھی کی اسلام آباد آمد پر کشمیر کے سائن بورڈز ہٹانے کے بے سروپا اور جھوٹے الزامات بے نظیر بھٹو اور ان کی حکومت پر لگائے تھے لیکن جب خود وزیر اعظم بنے تو بھارت کے وزیراعظم واجپائی کو بلا کر اعلان لاہور سائن کرلیا تھا۔
جب واجپائی لاہور آئے تھے تو جنرل پرویز مشرف نے ان کی سلیوٹ کرنے سے انکار کردیا تھا اور جماعت اسلامی کو واجپائی مظاہرے کرنے کی ہلا شیری دی تھی۔ جب نواز شریف کو برطرف کرکے چیف ایگزیکٹو بنے تو آگرہ ڈیکلریشن تک جا پہنچے تھے۔
یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک وقت میں بھارت کی شدید مخالفت کرنے والے سول حکمران اور فوجی جنرلز کو جب خود موقع ملتا ہے تو بھارت سے دوستی اور اچھے تعلقات کےسفیر بن جاتے ہیں۔
♥
One Comment