محمد شعیب عادل
اس سال کی بڑی خبر، طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی رہائی ہے۔کچھ لوگ اسے فرار قرار دے رہے ہیں جبکہ وہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد سے ہی ملک سے باہر گیا ہے۔ سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے قدم قدم پر ناکے اور چیک پوسٹیں تو عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ احسان اللہ احسان کی رہائی پر زیادہ واویلا کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے دن سے ہی ریاست کے ایک مہمان کے طور پر رہ رہا تھا اور شروع میں تو ریاست نے درباری صحافیوں کے ذریعے اس کا مثبت امیج بھی پروموٹ کرنے کی کوششیں کی تھیں۔
اس کے ساتھ ہی افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں ، فاٹا، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں طالبان اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے دوبارہ متحرک ہونے کی خبریں بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہ تنظیمیں نہ صرف چندہ اکٹھا کر رہی ہیں بلکہ شہریوں کو جہاد کی تبلیغ بھی کررہی ہیں۔
ایک اور بڑی خبر اسلام آباد کی لال مسجد پر مولانا عبدالعزیز کا قبضہ اور ان کےمدرسے کی طالبات کا دوبارہ منظر عام پر آنا ہے۔ انھوں نے جنرل مشرف کے دور میں گرائے گئے غیر قانونی مدرسے، جامعہ حفصہ، کی تعمیر اور اس کے معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ انتظامیہ انھیں امن و امان خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کی بجائے ان سے مذاکرات کر رہی ہے ۔ دباؤ بڑھانے کے لیے مولوی عزیز نے جہاد کشمیر دوبارہ شروع کرنے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ بھی داغ دیا ہے۔
اس تمام صورتحال کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنشن کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن سے فوج میں تقسیم گہری ہوگئی ہے۔ جنرل مشرف کی طرح جنرل باجوہ بھی عسکری تنظیموں کے خلاف کاروائیاں کرکے دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ وہ پاکستان کے سر پر لٹکی ایف اے ٹی ایف کی تلوار سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ عالمی اداروں کی جانب سے مالی امداد میں کوئی رکاوٹ نہ پیش آئے۔ جنرل باجوہ نے اپنے تئیں انتہا پسند تنظیموں کی سرگرمیاں بند کیں ہیں لیکن بہرحال وہ بھی جنرل مشرف کی طرح ریاست کے سٹرٹیجک اثاثوں کو ختم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔
کچھ ماہ پہلے مولانا فضل الرحمن کے ناموس رسالت لانگ مارچ سے جب متعلقہ نتائج نہ مل سکے اور جنرل باجوہ نے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی تو باجوہ مخالف گروپ نے اب دوسرا حربہ اختیار کیا ہے۔احسان اللہ احسان کی رہائی ہو یا طالبان کا دوبارہ متحرک ہونا یا لال مسجد پر مولانا عبدالعزیز کاقبضہ ریاست کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد کے بغیرممکن نہیں۔
دوسری طرف ملک کی معاشی صورتحال بھی انتہا ئی خراب ہے۔ عمران خان کو برسر اقتدار لانے والوں کا خیال تھا کہ آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہینڈسم نہ صرف بین الاقوامی طور پر ملک کی بگڑی ساکھ بہتر بنائے گا بلکہ ملک کی معاشی حالت درست کرنے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کا بڑھتا ہوا پیٹ بھی بھرے گا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ہینڈسم سیاسی امور میں بالکل نااہل ثابت ہوا ہے ۔ پاور بروکرز کے تمام اندازے غلط ہو چکے ہیں اور وہ ایک بار پھر دوسرے آپشنز پر غور کررہے ہیں ۔
وہ شریف برادران سے پس پردہ مذاکرات بھی کررہے ہیں اور انہیں قومی حکومت بنانے کو کہہ رہے ہیں۔قومی حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ وہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانےکے آپشن پر بھی غور کر رہے ہیں۔مگر آزادانہ انتخابات کرانے سے خوفزدہ ہیں۔ اقتدار کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ سیاست دانوں کو کھل کر حکومت کرنے دیا جائے ۔
شریف برادران بھی اپوزیشن میں رہنے کو تیار نہیں اور جلد ازجلد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے بے تاب ہیں اور پہلے سے بڑھ کر اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں ۔انھوں نے ووٹ کو عزت دو اور جمہوریت کی بحالی جیسے نعروں کی وقعت بھی ختم کر دی ہے۔ان کی بحالی جمہوریت کی جدوجہد اتنی ہی ہوتی ہے کہ انھیں جیلوں سے رہائی مل جائے اور رہائی کے بعد وہ دوبارہ انہی قوتوں سے جوڑ توڑ شروع کر دیتے ہیں جو انہیں اقتدار سے بے دخل کر تے ہیں۔
شریف برادران کو قومی حکومت پسند نہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں یا دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ مل جل کر حکومت کرنے کے وہ قائل ہی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ماضی کی طرح انجئنیرڈ انتخابات کے ذریعے انہیں اکثریت دلائی جائے اور وہ تن تنہا حکومت کریں۔ اور ان کے اس رویے نے ہی پی ٹی آئی کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سول سپریمیسی کے دعویدار اگر اپنے دور اقتدار میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر قومی حکومت بنا لیتے تو پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کی راہ کھوٹی ہو جاتی۔
ایک بات طے ہے کہ پاور بروکرز کوئی بھی آپشن اختیار کرلیں انہیں ناکامی ہو گی ۔ ملک اسی وقت خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن ہو سکتا ہےجب تک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہ ہوں اور اس کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ اپنے فیصلے خود کر سکے۔ وگرنہ بلی چوہے کا جو کھیل ستر سالوں سے جاری ہے وہ ختم نہیں ہونے والا۔
♦
One Comment