لیاقت علی
ایک وقت تھا جب حافظ محمد سعید اور لشکر طیبہ کے خلاف بات کرنا تو کجا اس کی طرف اشارہ کرنا بھی پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف سازش سمجھا جاتا تھا۔ حافظ سعید کا شمار ہماری جہادی قیادت کے سرخیلوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہماری ریاست اشرافیہ کے پسندیدہ جہادی تھے جو اس کے حکم اور ایما پر ہر وقت کاروائی کرنے پر تیار رہتے تھے۔ اور پاکستان کے آزاد میڈیا کے صحافیوں میں اتنی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان پر تنقید کر سکے۔
حافظ سعید کو ریاستی اہلکار کا پروٹوکول دیا جاتاتھا۔ وہ لاہور شہر یا باہر جہاں کہیں بھی جاتے ان کے گرد سرکاری اوران کے اپنے گارڈز پر مشتمل سکیورٹی حصار ہمہ وقت موجود ہوتا تھا۔ وہ مختلف قبضہ مافیاز کے مابین تنازعات کا فیصلہ کرتے اور اس کے صلے میں اپنی جماعت کے لئے چندے کی شکل میں اپنا حصہ وصول کیا کرتے تھے۔
کشمیر جہاد کی فرنچائز کے وہ چیف ایگزیکٹو تھے۔ سینکڑوں بچوں کو انھوں نے کشمیر جہاد کے نام پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر روانہ کیا جو وہاں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ حافظ سعید ان بچوں کے والدین کو ان کی شہادت اورجنت کی بشارت دینے بنفس نفیس تشریف لے جاتے تھے۔
حافظ صاحب گلی گلی جہاد کا پرچار کرتے اور جو شخص ان کے تصور جہاد سے اختلاف کرتا اس کے خلاف ہمارا سرکاری پالتو میڈیا اور حامد میر اینڈ کمپنی اور ریاست کے پالتو صحافی فوری طور پر حرکت میں آجاتے تھے۔ بلکہ حامد میر نے تو جہاد کے خلاف لکھنے والوں کے لیے لبرل فاشسٹ کی اصطلاح وضع کی تھی۔
کچھ عرصہ قبل تک تو ایسا لگتا تھا کہ حافظ سعید کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ لاہور ہائی کورٹ انھیں کلین چٹ دی چکی تھی۔ بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو یاپھر ممبئی دہشت گرد حملے ہماری عدالتیں انھیں ان سے بری الذمہ قرار دے چکی تھیں۔ انھیں ایک سے زائد مرتبہ نظر بند کیا گیا لیکن جلد ہی عدالتوں نے یہ کہہ کر ان نظر بندی ختم کردی کہ فائل پر ایسا مواد موجود نہیں جو ان کی نظربندی کو قانونی جواز فراہم کرسکے۔ ریاست اور حکومت نہیں چاہتی تھیں کہ حافظ سعید کسی مشکل میں مبتلا ہوں کیونکہ حافظ جو کچھ کررہے تھے وہ انھی کے ایما پر تو کررہے تھے۔
پھر ایک دن ایف۔اے۔ٹی۔ایف کا غلغلہ بلند ہوا اور پاکستان کو اپنے جہادی اثاتوں کی بابت جواب دہی کرنا پڑی۔ ایک سے زائد مرتبہ اقوام متحدہ میں چین نے ہماری مدد کی اور ہمیں مہلت لے کردی تاکہ ہم اپنا گھر ٹھیک کرسکیں لیکن ہمارے ریاستی ادارے جہادی قیادت کا سامنا کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے رہے۔
اب جب کہ دباو برداشت سے باہر ہوگیا ہے تو حافظ سعید جنھیں ہائی کورٹ کلین چٹ دے دیا کرتی تھی، کو ایک سیشن عدالت نے گیارہ سال کی سزا دے دی ہے۔یہ سزا ایف۔اے۔ٹی۔ایف کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے دی گئی ہے۔
اب اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ جہاد کو فارن پالیسی کا ٹول بنا سکتا ہے تو یہ اس کی بھول یا بے وقوفی ہے۔ دنیا اب جہاد اور دہشت گردی کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتی اور اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔لہذا حافظ سعید اگلے کچھ سال بھی جیل ہی میں قیام کریں گے اور ان کے باہر آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
♥