قطر میں امریکی مذاکرات کاروں اور طالبان جنگجوؤں کے نمائندوں نے آخر کار افغانستان میں قیام امن کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے سے انٹرا افغان مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔
طویل انتظار اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امریکی مذاکرت کاروں اور طالبان کے نمائندوں نے آج انتیس فروری بروز ہفتہ خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد افغانستان میں تعینات ہزاروں امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
معاہدے پر دستخط کی تقریب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان کے دوحہ میں ترجمان سہیل شاہین بھی شریک تھے۔
دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کے لیے افغان طالبان کا اکتیس ارکان پر مشتمل وفد بھی موجود تھا۔ امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے امریکی مذاکرات وفد کی قیادت کی۔
اس امن معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ طالبان مستقبل میں افغانستان کو القاعدہ اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے۔
ڈیل کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہو جائے گی، جو طالبان کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ یہ واپسی چودہ ماہ میں مکمل ہو گی۔ امریکا افغانستان میں تعینات اپنے بارہ ہزار فوجیوں میں سے آٹھ ہزار چھ سو فوجی واپس بلائے گا۔
امریکا اور طالبان دونوں ہی نے اس معاہدے کو سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ زدہ ملک میں قیام امن کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
امن معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کرتے وقت امریکا نے افغانستان میں مکمل سیز فائر کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم مریکا طالبان سے افغانستان میں تشدد کے مستقل خاتمے کی یقین دہانی حاصل نہیں کر پایا تھا۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہے تو افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجوں کی واپسی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امن معاہدے سے صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخابات جیتنے میں مدد ملے گی۔
معاہدے سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو معاہدے پر دستخط کے موقع پر دوحہ روانہ کیا اور اپنے وزیر دفاع مارک ایسپر کو کابل حکومت کا اعتماد میں لینے کے لیے افغان دارالحکومت کابل روانہ کیا۔
معاہدے کے وقت افغان حکومت کا وفد بھی دوحا میں موجود تھا لیکن ان کا بظاہر معاہدے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ اب تک طالبان افغان حکومت کو ‘امریکا کی کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہوئے کابل حکومت سے براہ راست رابطے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے معاہدے پر دستخط کیے جانے سے قبل کہا تھا، ”اسلامی جمہوریہ افغانستان نے طالبان کے ساتھ ابتدائی رابطوں کے لیے کمیٹی بنا دی ہے۔ ہم نے یہ کمیٹی طالبان کے مسلسل مطالبوں کے بعد قائم کی، جو ہم تک ہمارے عالمی اتحادیوں کی جانب سے پہنچائے گئے تھے۔‘‘۔
دوسری جانب ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا، ”ہم نے افغانستان کے حکومتی وفد کو دوحہ آنے کی دعوت نہیں دی۔ اگر امریکا نے انہیں بلایا ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں‘‘۔
سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا، ”ہم امریکا کے ساتھ معاہدے میں طے شدہ فریم ورک کے مطابق آگے بڑھیں گے۔ اعتماد سازی کے مرحلے میں افغان جیلوں سے ہمارے پانچ ہزار قیدی اور ہماری قید میں موجود حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اس کے بعد ہی انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہو سکتا ہے‘‘۔
DW