بیرسٹرحمید باشانی
ہماری صدی کوسوشل میڈیا کی صدی کہا جا سکتا ہے۔ مگرسوشل میڈیا اس صدی کی ابتدا میں جوخواب لیکرنمودار ہوا تھا وہ مر رہے ہیں۔ 1990کی دہائی میں سرد جنگ کا خاتمہ لبرل یعنی آزاد خیال جمہوریت کی فتح تھی۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی، جس کے ساتھ طرزحکمرانی کے بارے میں دنیا کے تصورات میں بھی تبدیلی آئی۔ مگر اس میدان میں حیرت انگیزانقلاب اس وقت آیا جب انٹرنیٹ اورموبائل فون سامنے آئے۔
انٹرنیٹ، موبائل فون اورڈیجیٹل دور کے دیگرذرائع ابلاغ نے مل کرسوشل میڈیا جنم دیا، جس سے ابلاغ کی دنیا میں انقلاب آگیا۔ سوشل میڈیا نے عام شہریوں کو طاقت بخشی۔ عوام کوایسی معلومات تک رسائی دی، جو پہلے ممکن نہ تھی۔ جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال سے عام لوگوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ نئے رابطے بنانے اورنئی” کمیونیٹیز” تشکیل دینے کا موقع ملا ۔ اس عمل سے ایک نئے من پسند مستقبل کا تصورپیدا ہوا۔ اورعام آدمی میں مستقبل میں اختیارات وحقوق کے بارے میں کافی خوش کن تصورات پیدا ہوئے۔ نئی امیدوں نے جنم لیا۔ جمہوریت، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی آزادی والوں نے اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجا لیے۔
مگرجیسا کہ تاریخ میں ہوتا آیا ہے، بد قسمتی سے یہ نئی ٹیکنالوجی بھی ان لوگوں کے کام آنے کے بجائےبلاخربالادست طبقات کے ہتھے چڑھ کر ان کی باندی بن گئی۔ عام آدمی سے زیادہ اس جدید ٹیکنالوجی سے ان طبقات نے فائدہ اٹھایا، جن کے پاس وسائل زیادہ تھے۔ اشرافیہ، حکمران طبقات، اورمعاشی طور پرخوش قسمت لوگ ان میں سرفہرست تھے۔
اس ٹیکنالوجی کوانتہائی چابکدستی سے استعمال کرتے ہوئے کئی ممالک میں حکمران طبقات نے مطلق العنانیت قائم کی، اورآمریت پسندی کو تحفظ دیا ۔ حکمران طبقات کی طرف سے اس ٹیکنالوجی کا ایک کامیاب استعمال یہ تھا کہ انہوں نے سیاسی مخالفین اورحزب اختلاف کی سرگرمیوں، نقل و حرکت اورمنصوبوں کو جاننے کے لیے اس سے استفادہ کیا۔
اس کا اثر یہ پڑا کہ جب شہریوں کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ وہ ہمہ وقت حکمرانوں کے ریڈار پرہیں، تو انہوں نے خود ہی رضاکارانہ طور پر اپنے اوپرخودساختہ پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ اس صورتحال نےان امیدوں پر پانی پھیردیا جوانٹرنیٹ، سوشل میڈیا اوردوسری جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے پیدا ہوئی تھیں۔
سوشل میڈیا سے اتنی امیدیں وابستہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سوشل میڈیا نے آتے ہی کچھ حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے تھے۔ سوشل میڈیا سے پہلے جن سماجوں میں اظہار رائے پر مکمل پابندی رہی تھی، وہاں اس نے حیرت انگیز طور پر تبدیلی کے دروازے کھولے تھے۔ مصرسے لیکر لیبیا اور یمن سے تیونس تک اس نےانقلاب کے راستے ہموار کیے۔ اس سے یہ جھوٹا تاثرابھرا کہ آمریت اورمطلق العنانیت کودورختم ہو چکا، اوراب دنیا میں کئی بھی حکمران طبقات اظہار کی آزادی پر پابندی لگانے سے قاصر ہوں گے۔
بد قسمتی سےمطلق العنان حکمرانوں نے بڑی سرعت سے اس تاثر کو غلط ثابت کیا، اور ایسے اقدامات کیے کہ یہ جدید ٹیکنالوجی بھی ان کے آمرانہ اقدامات کے لیے نیا چیلنج بننے کے بجائے ان کے حق میں استعمال ہونا شروع ہو گئی۔ انہوں نے اپنی مطلق العنانیت کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ٹیکنالوجی کواپنایا۔ اس طرح دنیا میں مطلق العنانیت کا جو نیا روپ سامنے آیا، اس کو” ڈیجیٹل آٹوکریسی” کہا جا سکتا ہے۔
اس میدان میں جن ممالک نے بہت زیادہ مہارت کا ثبوت دیا ان میں عوامی جمہوریہ چین سب سے نمایاں ہے۔ جو ٹیکنالوجی روایتی آٹوکریسی کے لیے مسئلہ بن سکتی تھی، اس کے تدارک کے لیے اس سے بھی جدید ٹیکنالوجی ایجاد کر لی گئی۔ اس طرح ڈیجیٹل آٹوکریسی اپنے پیشروآمروں سے زیادہ موثر قوت بن گئی؛ چنانچہ اس صدی کے شروع میں پیدا ہونے والی امیدوں کے برعکس آمریتوں نے ٹیکنالوجی کا شکارہونے کے بجائے اسے مخالفین کا شکار کرنے کا ایک عظیم ذریعہ بنالیا۔
مثبت یا منفی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ڈیجیٹل دورنے طرزحکمرانی کوبدل دیا۔ فریڈم ہاوس کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق سال 2000 کے بعد دنیا میں سیاسی اورشہری آزادیوں پر پابندیوں کے رحجانات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ ان ملکوں میں زیادہ ہوا، جہاں ابتدا میں مطلق العنانیت کے خلاف سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کواستعمال کرنے کی کامیاب کوشش ہوئی۔
جس کی ایک مثال سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے بڑی تعداد میں عوام کو مدعواورشامل کرنا تھا۔ رد عمل کے طور پر کئی ممالک میں شہریوں کو احتجاج سے روکنے کے لیے نت نئے طریقے استعمال کیے گئے۔ نئی قانون سازی ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے سختی ، جبراورتشدد کے طریقے استعمال کیے گئے۔
مختلف استبدادی اورآمریت پسند حکومتوں نے ٹیلی کمیونیکشن انڈسٹری پرقابو پانے کے لیے سخت قسم کے کالے قانون بنائے۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول اور مانٹیر کرنے کے لیے سپیشل ٹاسک فورس جیسے ادارے بنائے گئے۔ سائبر کرائم ایکٹ جیسے قوانین کے ذریعے سوشل میڈیا کو قابو کرنے اوراظہار رائے کی آزادیوں کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح سیاست میں ” ڈیجیٹل ریپرشن” کی نئی اصطلاح سامنے آئی۔ کچھ ملک میں ڈیجیٹل انقلاب کی جگہ “ڈیجیٹل استبدایت” نے لے لی۔
ڈیجیٹل استبدادیت میں سب سے نمایاں اورخطرناک عمل مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ حساس کیمروں، چہروں کی شناخت، جاسوس وائرس، خود کار ٹیکسٹ ریڈنگ اور ڈیٹا پراسسنگ کی وجہ سے پوری پوری آبادی پرنظررکھنا آسان ہو گیا ۔
اس عمل کی بھی کامیاب مثال چین ہی ہے۔ چین میں وسیع پیمانے پرافراد اور کاروباری اداروں کے ٹیکس، بینک اکاونٹس، خریدوفروخت کی سرگرمی، اورطبی ریکارڈ جمع کیا گیا۔ اس ریکارڈ کو سامنے رکھ کراچھےاوربرے شہری کی درجہ بندی کی گئی۔ اوراس درجہ بندی کے ذریعے پسندیدہ افراد کو مراعات دی گئیں، اورناپسندیدہ افراد پر نظر رکھنے اوران کی زندگی مشکل بنانے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس طرح ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کے سیاسی و مذہبی خیالات اورطرززندگی پرنظررکھی گئی۔ مانیٹرنگ کا یہی نظام تھا، جس کے زیعے کچھ مسلمانوں کو” ازسرنو تعلیم” کے لیے لے جایا گیا۔
اس ٹیکنالوجی کا استعمال صرف عوام کے خلاف ہی نہیں ہورہا، بلکہ خود اقتدار کی رہداریوں میں حکمران اشرافیہ پرنظر رکھنے کے لیے بھی یہ ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، تاکہ اشرافیہ کے اندرسے بغاوت کے امکانات کوروکا جا سکے۔
چین ان ملکوں میں کامیاب ترین ہے، جن میں ڈیجیٹل میڈیا کے دورمیں سنسرشپ کا کامیاب نظام قائم کیا گیا۔ اس نظام کے تحت ناپسندیدہ مواد کو روکنا، ویب سائٹس پرپابندی لگانے کے طریقے، فیس بک اوریوٹیوب پرقابو پانا شامل ہے۔ اس کی حالیہ مثال ہانگ کانگ کے مظاہروں کے دوران سامنے آئی جب مین لینڈ چین میں فائر وال کے ذریعے ان مظاہروں کی خبروں کو روکا گیا۔
چین کی کامیابی کو دیکھتے ہوئےروس سمیت کئی افریکی ممالک چینی طرز کی پابندیوں کو متعارف کروانے کے طریقے سیکھنے کے لیے تربیت لے چکے ہیں۔ جن ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں ہے ان میں عوام کواندھیرے میں رکھنے کے لیے سرے سے انٹرنیٹ ہی بند کرنا پڑتا ہے،جیسا حال ہی میں ایران میں مظاہروں کے دوران ہوا۔ یا پھر بھارت نے کشمیر میں کیا۔
دنیا میں حکمران طبقات یہ ٹیکنالوجی صرف مخالفین کے خلاف ہی نہیں استعمال کر رہے، بلکہ استبدادی حکومتیں عوام میں اپنابہترامیج بنانے کے لیے بھی اس جدید ٹیکانالوجی کواستعمال کر رہے ہیں۔ شہریوں کے شعوراورادراک کو بدلنے کے لیے بڑے پیمانے پراس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال روس ہے، جہاں عوام میں حکمرانوں کا اچھاامیج بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کواستعمال کیا گیا۔
حکمران طبقات کی طرف سے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کےغلط استعمال سےجمہوریت کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق سن 1946سے لیکرسال2000تک کسی ایک ملک میں ایک عام طورپر آمریت کی اوسط مدت تقریبا دس سال تھی۔ جدید ٹیکنالوجی کے بعد یعنی سال دو ہزار کے بعد یہ مدت بڑھ کردوگنی ہوگئی ہے۔
فریڈم ہاوس کی رپورٹ کے مطابق سال2013 سے 2018 تک بہت سارے ممالک جو پہلے اظہار رائے کے باب میں آزاد شمارہوتے تھے، ان میں کمی آئی ہے، ان ممالک میں انڈونیشیا، ڈومنیکن ریپبک، ہنگری وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو نئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کواس تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال روکنا ضروری ہے۔ اس غلط استعمال میں جھوٹی خبریں، کردار کشی، جھوٹے الزامات ، مذہبی منافرت، توہین مذہب، فحاشی اورفریب کاری وغیرہ شامل ہیں۔ مگران چیزوں کو بنیاد بنا کراظہاررائے پرپابندی جمہوریت پرحملے کی مترادف ہوگی۔یاد رکھنا چاہیے کہ اظہاررائے کے بغیرجمہوریت آمریت کی بد ترین شکل ہوتی ہے۔
♦