عبدالرزاق کھٹی
خلیل الرحمان قمر صاحب ! ‘میرے پاس تم ہو’ تو مجھے کسی اور کو وکیل کرنے کی ضرورت ہی کیوں ہو؟ تم نے تو اس ملک میں تیزی سے پنپنے والی اس سوچ کی نمائندگی کی ہے، جس کے لیے ہمارے پالیسی ساز برسوں سے شب و روز کوششوں میں مصروف تھے، یہ تو ہمارے لیے باعث رحمت ہے کہ آپ کی صورت میں ایک ایسا شخص ہمیں میسر آیا جو ہماری بات کرتاہے!۔
عرصہ ہوا، ٹی وی ڈرامے دیکھنا ہی چھوڑ دیئے تھے، حال ہی میں مختلف دفاتر میں آپ کا نام سننے کو ملا۔ کیوں کہ پہلے کبھی نہ آپ کی کتاب اور نہ ہی کبھی کوئی مضمون نظر سے گذرا تھا، یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم آپ کے افکار سے اتنا عرصہ بے خبر رہے ۔ اچانک ایک دن کسی نے بتایا کہ ‘ میرے پاس تم ہو’ کی آخری قسط اب سینما میں نمائش کیلئے پیش کی جائے گی، یہ پاکستان میں پہلی بار ہونے جارہا تھا ۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ یہ ڈرامہ آپ ہی کا لکھا ہوا ہے۔ آخری قسط نشر ہونے کے بعد ہر طرف دانش ہی دانش تھا یا آپ کی دانش کے چرچے تھے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آپ ہی آپ تھے!۔
ہم نے تو اسی کی دھائی میں وارث ڈرامے کیلئے بازار بند ہوتے دیکھے تھے، ہم نے سمجھا تھا کہ امجد اسلام امجد کو کوئی مات نہیں دے سکے گا، کوئی جنگل کی نورالہدیٰ شاہ کو بھول نہیں سکے گا، کوئی حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا کو بھلاسکے گا، لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ارادوں کو ٹوٹتے دیکھا تو ہمیں یقین ہونے لگا کہ ہم درست نہیں تھے، تقاضے تبدیل ہوئے تو ہم نے سمجھ لیا کہ ہم غلط تھے، نئی روایات نے بھی جنم لیا، قمر صاحب ! آپ جس طرح ملکی منظرنامے پر ہم جیسوں کیلئے ابھر کر سامنے آئے تو ہمیں اپنی لاعلمی پر بھی ندامت ہوئی کہ ہم آپ کی اعلیٰ علمی سے اتنا عرصہ کس طرح بے ثمر رہے، ہمیں معاف کیجئے گا۔
لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ کی آنٹیوں کی جانب سے گذشتہ دوبرسوں سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے مظاہروں نے اس ملک میں رہنے والے ایمان افروز لوگوں کی اخلاقیات کو چیلنج کیئے رکھا تھا، یہ تو بھلا ہو ہماری سوشل میڈیا بریگیڈ کا کہ جس نے بروقت ان کو نہ صرف جواب دیا بلکہ ان خواتین کے مظاہروں کی تصاویر کے اندر اپنے ‘فن پارے’ شامل کرکے خواتین کو ان کی ‘ اصیلت’ دکھانے کا بھی کام کیا، ان فن پاروں میں ہماری مردانگی کے وہ سارے جوہر شامل تھے، جو ہمارے خیالات میں چوبیس گھنٹے بسے رہتے ہیں۔
خلیل الرحمان قمر صاحب !! حال ہی میں جس طرح آپ نے دلیل ختم ہونے پر ایک خاتون کے بارے میں ٹی وی چینل پر اظہارخیال کیا اس نے تو بس خوش ہی کردیا، جیتے رہو میرے یار ۔۔ دیکھیں کس طرح لوگ ایک کونے میں بیٹھ پر سوشل میڈیا پر یہ تاثر دے رہے رہے ہیں کہ ملک بھر میں لوگ آپ کے فرمائے ہوئے ارشادات کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ نے اس خاتون کو الو کی پٹھی کہا، آپ کو ایسا ہی کہنا چاہیئے تھا، کیوں کہ ہم اکثر و بیشتر اپنے آس پاس اور گھر میں بھی، جب کوئی ہماری انا کو للکارے تو ہم پرائی تو کیا اپنی خواتین کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
آپ نے یہ بھی ٹھیک کہا کہ ‘ میں تمہار جسم پر تھوکتا بھی نہیں’ آپ کو ایسا ہی کہنا چاہیئے تھا، کیوں کہ ایسی خواتین کی وجہ ہمارے معاشرے میں زبان درازی بڑھ گئی ہے، ایک طرف وہ لوگ ہیں جو کسی طور خواتین کی آزادی کے حق میں نہیں ہیں، وہ بھی ایک انتہا پر ہیں، دوسری جانب اس طرح کی خواتین ہیں، وہ بھی دوسری انتہا پر کھڑی ہوئی ہیں، ظاہر ہے کہ شدت پسندی کا جواب شدت پسندی ہی ہوتا ہے، لیکن کیونکہ آپ ہمارے معاشرے کے سب سے متعبر اور اہل علم شخص ہیں، ایک ایسے لکھاری، جن کے ڈرامے کو دیکھنے کیلئے لوگ اپنے گھروں سے نکلتے ہیں ، سینما کے سامنے لائینوں میں کھڑے ہوکر ٹکٹ بک کرواتے ہیں، تاکہ آپ کے ڈرامے کی آخری قسط دیکھ سکیں، ایسے لکھاری سے ایسے ہی جواب کی امید کرنی چاہیئے، آپ ہماری نسل کے رول ماڈل ہیں، تبھی تو لوگ اس خاتون کی دشمنی میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جناب عالی آپ سمیت پاکستان کی ایک بڑی اکثریت بھی ان خواتین کو بے حیا ہی سمجھتی ہے، کہ وہ اپنے جسم پر اپنی مرضی چاہتی ہیں، کیوں کہ پاکستان کی ایک بڑی اکثریت خواتین کے جسموں پر اپنی مرضی چاہتی ہے ، کیوں کہ ہمارے قبائلی مردانہ معاشرے میں جب نکاح فارم کے تیسرے صفحے کے نصف حصے پر نکاح خوان اوپر سے نیچے تک ایک لکیر کھینچ کر وہ سارے حق جو ایک منکوحہ کو دیئے جاتے ہیں ایک نکاح کرنے والی خاتون سے واپس لے لیتا ہے تو اس کی یہ مجال کہ وہ اپنی مرضی کی بات کرے،۔
قدم بڑھایئے خلیل الرحمان قمر ہم آپ کے ساتھ ہیں، کیوں کہ اگر آپ قدم نہیں بڑھائیں گے تو کھیت میں کام کرنے والی خاتون اپنی محنت کا حصہ مانگے گی، اپنی مرضی سے شادی کا حق مانگے گی، باپ کی دولت سے اپنے حصے کی وراثت مانگے گی، کام کے دوران اپنی عزت کا تحفظ مانگے گی، نکاح کے وقت اپنے مسقتبل کے تحفظ کیلئے حق مہر مانگے گی۔ دوسری شادی کے وقت اپنے شوہر کو اجازت دینے کا اختیار مانگے گی، بھائی یا باپ کی وجہ سے ونی یا کاری نہیں بنے گی۔
آپ ایک کام کیجئے ، ایک ڈارمہ ایسا بھی لکھیئے، جس میں ایک الو کی پٹھی خاتون کا کردار شامل کریں، جو زبان دراز ہو، اور جی بھر کے اس کو دوسرے کردار کے ذریعے گالیاں دیں، تاکہ اس معاشرے کی انا کی تسکین ہو۔ کیوں کہ اس معاشرے کو گالیوں میں ہی تسکین ملتی ہے اور آپ سے بہتر یہ کام کون کرسکتا ہے۔
آپ ہی ہمارے معاشرے میں ہماری نمائندگی کا حق رکھتے ہیں اور ہم یہ حق ہر اس فرد کو دینے کیلئے تیار ہیں جو آپ کی تقلید کرے ۔ کیوں کہ ہم وہ ہی لوگ ہیں، جو اپنے آس پاس ہی نہیں سیاست میں بھی ایسا ہی کرتے ہیں ۔ جب ایوب خان گلاب کے نشان پر انتخابات جیت گئے تو کراچی میں ایوب خان کے کارکنوں نے ایک دوسرے کو گلاب کے گجرے پہنائے اور فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لالٹین ایک کتیا کی گردن میں لٹکایا اور کتیا کے پیچھے دوڑتے رہے اور ایوب خان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔
مادر ملت جب انتقال کرگئیں تو ہم ان کے بارے میں کیا کیا کہتے رہے، رعنا لیاقت علی خان کے بارے میں ہم نے مزے لے لے کر کیا قصے نہیں سنے، ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہیں کہا گیا تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو کو ووٹ دیا تو آپ کا نکاح ٹوٹ جائے گا، آپ ان کا ہی تسلسل ہیں، زندہ باد !
جب بھی گالی دی تو اس میں کبھی ماں تو کبھی بہن شامل کردی، کیوں کہ ایسا کرنے سے تسکین ملتی ہے، کہیں نہ کہیں غصے کی حدت میں کچھ افاقہ ہوتا ہے۔
اس لیے اس ملک کے لوگوں کو پہلے آپ کا شکر گذار ہونا چاہیئے کہ خواتین کو ایک خاتون کے ذریعے آپ نے ان کی اوقات یاد دلائی، دوسرے مرحلے پر اس اینکر پرسن خاتون کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیئے، جب آپ اپنے مدمقابل خاتون کے جسم پر حقارت سے تھوکنے سے انکار کرتے رہے تو وہ اس وقت اخلاقیات کا دامن ہاتھ میں رکھنے کیلئے تھوک سے محروم رہ جانے والی خاتون کو خاموش رہنے کی تلقین کرتی رہیں۔
اس لیے گھبرانا نہیں، آپ قدم بڑھائیں، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
♣
One Comment