کابل میں حملہ، دو درجن سے زائد ہلاک

افغان دارالحکومت کابل میں ایک تقریب کے دوران نامعلوم جنگجوؤں نے حملہ کردیا۔ اس واقعے میں کم از کم ستائیس افراد ہلاک اور انتیس زخمی ہو گئے۔ اس تقریب میں افغان سیاسی رہنما عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے۔

افغان حکام کے مطابق آج جمعے کے دن نامعلوم جنگجوؤں نے اچانک کابل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب کے دوران حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں ستائیس افراد ہلاک جبکہ انتیس زخمی بھی ہو گئے۔ افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز پر پیش کیے گئے مناظر میں دیکھا گیا کہ جائے وقوعہ پر فائرنگ شروع ہوتے ہی بھگدڑ مچ گئی۔

افغان وزارت صحت کے ترجمان وحیداللہ معیار نے بتایا ہے کہ ابھی تک 27 افراد کی نعشیں اور 29 افراد کو ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

طلاعات کے مطابق افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی اس تقریب میں موجود تھے لیکن وہ اس قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے۔ عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فریدون خوازون کے بقول اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا اور ایسا لگا کہ راکٹ داغا گیا ہو۔ ان کے مطابق عبداللہ عبداللہ اور دیگر سیاسی رہنما محفوظ ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے ایک ٹویٹ میں میں اس حملے کو ’جنگی جرم اور قومی اتحاد کے خلاف‘ قرار دیا ہے۔

طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ اُن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں واضح کیا گیا کہ افغان ہزارہ برادری کے رہنما عبدالعلی مزاری  کی برسی کے سلسلے میں منعقدہ تقریب پر حملے میں کوئی طالبان ملوث نہیں ہے۔  ہزارہ برادری کے رہنما عبد العلی مزاری سن 1995 میں طالبان کے ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

واضح رہے گزشتہ ہفتے ہی طالبان اور امریکا کے مابین ایک تاریخی ڈیل کو عملی شکل دی گئی تھی جس کے تحت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو جلد از جلد یقینی بنانا ہے۔

DW

Comments are closed.