کورونا اب ایک عالمی وبا بن چکا ہے۔ کوئی ملک بھی ایسا نہیں بچا جہاں کورونا نہ پہنچا ہو۔ چین کے بعد اٹلی کورونا کا ہیڈ کوارٹر بن چکا ہے۔ کل کی خبروں کے مطابق اٹلی میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مر چکے ہیں۔ اٹلی سے یہ وائرس یورپ کے دیگر ممالک میں پہنچا۔ اور اب ہر ملک اپنی سرحدیں بند کر رہا ہے۔ ناروے جیسا ملک جہاں مریضوں کی تعدا آٹھ سو تک جا پہنچی ہے، وہاں کی وزیر اعظم نے کل یہ فیصلہ کیا ہے کہ نارڈک ممالک (سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈ، فن لینڈ) کے علاوہ کسی بھی ملک سے آنے والے کو دو ہفتوں کے لیے قرنطیہ میں رہنا ہو گا ۔ امریکی صدر نے برطانیہ کے علاوہ تمام یورپی ممالک سے آنے والوں کو داخلہ بند کر دیا ہے۔
جرمنی کی چانسلر میریکل کے مطابق جرمنی کی ستر فیصد آبادی کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ ۔ کل کی ایک نارویجن اخبار کے مطابق جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ گرمیوں میں وائرس ختم ہو جائے گا، وہ صحیح نہیں ہے۔ مئی کے مہینے میں کورونا پورے جوبن پر ہو گا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ وائرس موجودہ سال کے آخر میں رخصت کا ارادہ کرے گا۔
کچھ ممالک اپنے اعداد و شمار چھپا رہے ہیں کہ آبادی میں ہراس نہ پھیل جائے۔ ہمارا پڑوسی ملک ایران، جہاں سے یہ وائرس ہمارے ہاں پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، نے اس مسئلے کو چھپانے کی کوشش کی۔ وہاں کے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ لوگ سٹرکوں پر مرے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور کرونا کے ڈر کے مارے کوئی اُن لاشوں کے نزدیک نہیں جا رہا۔ کل فیس بک پر ایک ایسی ہی ویڈیو دیکھنے میں آئی جہاں سڑک پر ایک لاش پڑی ہوئی تھی اور پاس سے گاڑیاں گزر رہی تھیں ۔
پاکستان کا کیا حا ل ہے، اس کا پتہ کرکٹ میچوں کے بعد پتہ چلے گا کیونکہ حکومت کورونا کا ذکر کر کے رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہ رہی۔فٹ بال میچز ختم ہو رہے ہیں۔ فلموں کی ریلیز ملتوی ہو رہی ہے کیونکہ ہر وہ جگہ جہاں لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہو سکتے ہیں، وہ کورونا پھیلانے میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بند کر دیئے۔ ایسے حالات میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ ہمیں بھی نماز جمعہ بلکہ باجماعت نمازسے تاریخ میں پہلی بار پرہیز کرنا ہو گا۔
عجیب اتفاق ہے کہ آج امریکی صدر ٹرمپ اور برطانیہ کے شہزادہ چارلس بھی دوسرے لوگوں سے مصافحہ کرنے کی بجائے ہندوؤں کے انداز میں نمسکار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ کوئی ہندو اپنے عقیدے یا معاشرت کے بہتر ہونے کا دعویٰ نہیں کرے گا۔
ہمارے علماء اور اسلامی ”سائنسدانوں“ کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ جو لوگ روز وضو کرتے اور نماز پڑھتے ہیں وہ کورونا سے متاثر نہیں ہوں گے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ کوورونا کے ہاں کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل نہیں ہے، سوائے احتیاط کرنے کے۔ چنانچہ جہاں آیت اللہ ولایتی اس مرض میں مبتلا نظر آئے وہیں برطانیہ کی وزیر صحت بھی کورونا کا شکار نکلیں۔ اور عراقی عالم ہادی المدرسی جن کا دعویٰ تھا کہ کورونا کی صورت میں اللہ نے کفار پر اپنا عذاب نازل کیا ہے ہے وہ خود بھی اس خدائی عذاب کے شکار نکلے۔چند لمحے پہلے کی خبر کے مطابق کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوکی بیوی کورونا پازیٹو نکلی۔ وزیر اعظم خود بھی قرنطیہ میں چلے گئے ہیں۔
کل ایران سے ایک فارسی پیغام سامنے آیا۔ ” نماز جمعہ جس کی ادائیگی کے دوران موت آنے کی چالیس سال سےدنیا آرزو(دعا) کرتی رہی، موت کے خوف سے چھٹی کر لی گئی“۔ ہر جگہ مقدس مقامات کو بند کیا جا رہا ہے۔ کعبہ ہو، دیوار گریہ ہو، یا مشہد و قُم میں مقدس مزارات ہوں، سب کا ایک ہی حال ہے۔ سعودی عرب نے غیر معینہ مدت کے لیے عمرہ اور طواف کعبہ پر پابندی عائد کر دی۔ کعبہ کے گرد طواف کو بند کرنے کے نتیجے میں زمین کی گردش رکنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہےتھے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق زمین ابھی تک معمول کے مطابق گردش کر رہی ہے۔
خالق کائنات جواپنے گھر کی بندش کو روک نہیں پایا، جو اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کا دعوے دار ہے، پہلی بار وہ انتہائی بے بس نظر آ رہا ہے۔ کرونا کا ظہور شائد مذہب اور مذہبی دوکانداری کا اثر کم کرنے کے لیے ہوا ہے۔ کہ نہ پانچ وقت کی نماز اور نہ وضو مدد کر رہا ہے۔ کلونجی اور عجوہ اور آب زمزم اپنی تاثیر کھو چکے ہیں۔ وہ لوگ جو ہر مرض کا چراغ ایک پھونک سے بجھا دینے کے دعوے دار تھے، اُن کے پھونکیں حلق کے اندر دم توڑ رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کورونا جب واپس لوٹ جائے گا تو مذہبی دوکاندار کیسی تاویلیں لاتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے بقول کورونا امریکہ نے چین کو مات دینے کے لیے تخلیق کرنے کے بعد چین میں چھوڑا ہے کہ امریکہ معاشی میدان میں چین سے مات کھا چکا ہے اس لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے نزدیک یہ امریکہ کی چین کے خلاف حیاتاتی جنگ کا ایک ہتھیار تھا جسے چین کےخلاف استعمال کیا گیا ہے۔ شائد اُن کے نزدیک امریکی انتظامیہ اس قدر جاہل تھی کہ انہیں اس بات کی خبر نہیں تھی کہ یہ وائرس ساری دنیا کو لپیٹ سکتا ہے۔ کل کی خبر تھی کہ برازیل کو جو اعلیٰ سطحی وفد صدر ٹرمپ کو ملا، اُن میں شامل برازیلی صدر کا پریس سیکریٹری بھی واپس جا کر کورونا کا مریض نکلا۔ صدر ٹرمپ کا اس وقت کیا حال ہے، ابھی کوئی خبر نہیں آئی۔
افواہیں پھیلانے کے مطابق کہا جاتا ہے کہ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک چین کے خلاف اس معاشی جنگ کو ہار چکے ہیں، اور ان کے پاس چین کو روکنے کا یہ ایک بہترین ذریعہ تھا۔ لیکن کیا مغربی ممالک کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا؟۔قطع نظر اس کے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک چین کو ایک ورک شاپ کے طور پر استعمال کر رہے تھے کہ چین میں ایک منظم اور سستی ورک فورس ہے، لہذا اپنے ممالک میں چیزیں پیدا کرنے کی بجائے چین میں یہ چیزیں پیدا کر کے اپنی ضروریات پوری کرنا زیادہ منافع کا سودا ہو گا۔
اگر مغربی ممالک اپنی سرمایہ کاری چین سے باہر نکال لیں اور اسے بھارت منتقل کر لیں تو اس میں مغربی ممالک کا زیادہ نقصان ہو گا یا چین کا؟۔ اگر مغربی ممالک اپنی ٹیکنالوجی کو چین میں مزید منتقل ہونے کو روک دیں۔ اگر ٹیکنالوجی کی چوری کو روک دیا جائے تو کیاچین اپنی ترقی کی رفتار کو بحال رکھ پائے گا؟۔
اگر فرض کر لیں کہ الزامات درست ہیں تو اس سے مغربی ممالک کو کیا فائدہ پہنچا کہ جہاں اُن کے اپنے ممالک میں زندگی مفلوج ہو رہی ہے۔ کنڈر گارٹن، سکول،کالج اور یونیورسٹیاں بند ہو رہی ہیں۔معیشت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو کورونا سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ریستوران اجڑ گئے ہیں، ہوٹل انڈسٹری اور ٹورسٹ انڈسٹری کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔ ہوائی کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ رہی ہیں،جس سے نپٹنے کے لیے سٹاف میں کمی لائی جا رہی ہے، کرایوں کی قیمتیں گھٹا ئی جا رہی ہیں۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیےشرح سود کم کی جا رہی ہے ۔
آج ناروے کے ریاستی بنک کا بھی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایک سے لے کر آدھ فیصد تک شرح سود کم ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ شرح سود پہلے ہی ڈھائی فیصد سالانہ ہے۔ایک دم سے ایک فیصد شرح سود کم کرنا بہت بڑا قدم ہو گا۔
مغربی ممالک میں اس قدر ہراس پھیلا ہوا ہے کہ لوگ کھانے پینے اور ضرورت کی دیگر اشیا کو جمع کر رہے ہیں۔ دو دن پہلے ایک ویڈیو دیکھی کہ ٹائلٹ پیپر کے ایک رول کو خریدنے کی خاطر تین خواتین امریکہ میں ہاتھا پائی کر رہی تھیں۔ کل بیوی نے فون کیا کہ وہ حسب معمول شام کے وقت کے نزدیکی سٹور پر کھانے کی چیزیں خریدنے گئی اور دوکان کا جو حال دیکھا تو وہاں کام کرنے والی ایک لڑکی سے پوچھا کہ دوکان تقریباً خالی نظر آ رہی ہے، کیا دوکان کو کہیں اور منتقل کیا جا رہا ہے۔ اُس لڑکی نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں، اصل میں لوگ دھڑا دھڑ خرید کر سٹور کر رہے ہیں۔
ایسے حالات میں بھی “انقلاب موعود” کے داعی کورونا کو چین کو کمزور کرنے کی سازش کہیں تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے چند سالوں ٹیکنالوجی چوری کرنے کی وجہ سے چین نے کافی ترقی کر لی ہے، اور اس دوران امریکہ جنگوں میں مصروف رہا۔ لیکن اب جنگیں ختم ہو رہی ہیں۔ اور امریکہ واپس اپنی جگہ سنبھالنے جا رہا ہے۔ سوویٹ یونین کے خاتمے کے بعد جن کی امریکی دشمنی کا اب کل سہارا چین ہے، شائد انہیں کچھ عرصہ بعد مایوسی کا سامنا ہو۔
”انقلاب موعود“ کے دائیوں کے نزدیک امریکہ دشمنی بے شک اُن کے نظریاتی ایمان کا حصہ ہو، لیکن چین بھی ابھرتی ہوئی سامراجی قوت ہے، جو پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر وہاں بڑی بڑی سڑکیں بنا رہا ہے، پُل بنا رہا ہے، بڑی عمارتیں بنا رہا ہے۔ اور چونکہ وہ ممالک اپنا قرضہ واپس کرنے کے اہل نہیں ہیں تو اُن ممالک کے منافع بخش کاروباروں پر قبضہ کر رہا ہے، کہیں کسی ملک کی بندرگاہ کو ہتھیایا جا رہا ہے، کہیں کسی ملک کا ایرپورٹ قابو کیا جا رہا ہے، کہیں معدنی ذرائع ہتھیائے جا رہے ہیں۔
یاد رکھیں کہ کہ اگر چین اس دنیا کی عالمی قوت بنا تو مغربی ممالک کے مقابلے میں ایک انتہائی گھناونا سامراج ثابت ہو گا۔ جس کا واحد مقصد دنیا کو نچوڑنا ہو گا، اور انہیں کسی قسم کی جمہوریت، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔
♦