ریاستی ایماء پر پشتون و بلوچ بیلٹ میں کورونا وائرس کی آؤ بھگت ” برسراقتدار طبقے کے انتخاب کردہ وزیر اعظم عمران خان کی کورونا وائرس کےحوالے سے تقریر میں کورونا کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنا کر پیش کیا گیا ۔
کورونا وائرس کی مد میں جہاں امداد کا مطالبہ کیا گیا تو وہیں عالمی بینک و آئی ایم ایف سے قرضے معاف کرنے کی درخواست بھی گئی ۔ اس سے پہلے ریاستی ایماء پر پشتون و بلوچ بیلٹ میں پولیو کی مد میں اربوں ڈالر ہڑپ کیے گئے ہیں ۔ علاوہ ہ ازیں افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے عوض ریاست نے یورپی یونین ، اقوام متحدہ اور بالخصوص امریکہ سے کھربوں روپے وصول کیے ہیں ۔
عرصہ دراز سے ریاست کی جانب سے پشتون و بلوچ بیلٹ کو وار آن ٹیرر ، طالبانائزیشن اور نام نہاد فرقہ واریت کی تجربہ گاہ بنایا گیا ہے ۔ دیکھا جائے تو پاکستان نے روز اول سے چائنا کو گلگت کی زمین دے کر ، کشمیریوں کی زمین پر قبضہ کر کے ، پشتون و بلوچ آزاد ریاستوں کو زیر نگین لا کر استعماری کارسازیوں کو داخلہ و خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا ہے ۔
نئے دور کی نئی سامراجی و استعماری پالیسیوں کے تسلسل کو بڑھاوا دیتے ہوئے ریاست پاکستان کی اصل طاقتوں نے بلوچ و پشتون بیلٹ میں بائیولوجیکل وار فئیر کو فروغ دینے کیلئے اور عالمی اداروں سے امدادی رقم بٹورنے کیلئے کورونا وائرس کو بلوچستان کی حدود میں داخل کرنے کیلئے ہر سہولت مہیا کی ۔ یہی نہیں ، ریاست نے ایران کے قم علاقے سے آنے والے متاثرہ زائرین کو بلوچستان میں داخل کروایا ۔ وہاں سے کوئٹہ لائے اور اب دھیرے دھیرے وائرس کو پھیلایا جا رہا ہے ۔
سننے میں آرہا ہے کہ خیبرپختونخوا کو بھی کورونا سے متاثر کر کے ریاستی ذریعہ معاش بنانے کی منظوری دی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں درازندہ ( خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سرحد ) میں کورونا سے متاثرہ زائرین کو رکھا جا رہا ہے ۔ اسی طرح چمن ( قلعہ عبداللہ ) میں بھی آئسولیشن کیمپ میں کورونا سے متاثرہ لوگوں کو رکھا جا رہا ہے ۔ شیخ زید ہسپتال میں عدم سہولیات کے پیش نظر کورونا سے متاثرہ شخص کی موت واقع ہوئی ہے۔ جس سے ایک غیر سیاسی شخص کو بھی کورونا سے متعلق ریاستی پالیسی سمجھ میں آگئی ہے ۔
کوئٹہ کے ہزارگنجی علاقے میں ایف سی فورس کی سخت سیکیورٹی میں متاثرہ زائرین کو رکھا گیا ہے ۔ جہاں کورونا کے تشخیصی کٹس ہیں اور نہ ہی زندگی رواں رکھنے کیلئے دیگر سہولیات ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بلوچستان کی مقامی سیاسی جماعتیں اس سنگین صورتحال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
میڈیا کے ایک ساتھی کے بقول کورونا سے متاثرہ مریضوں کیلئے بنائے گئے کیمپس میں صحافی برداری کو ریاستی من مرضی کی معلومات فراہمی کے علاوہ کوریج کی اجازت نہیں دی جاتی ہے ۔ جہاں چیزیں چھپائی جائیں ۔ وہاں لازمی طور پر گڑبڑ کا خطرہ ہوتا ہے ۔ الغرض اس وقت ریاست نے خود کوایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے بچانے کیلئے بلوچ و پشتون بیلٹ میں کورونا کو پھیلانے میں کوئ کسرنہیں چھوڑی ہے ۔
پولیو کی مد میں آنے والی رقم پر بس کرنے کی بجائے ریاست کورونا کو ختم کرنے کے عوض مزید رقم حاصل کرنے کیلئے جتن کر رہی ہے ۔ اگر بلوچستان و خیبرپختونخوا واسیوں کو زندگی جیسی نعمت عزیز ہے تو انہیں ریاست کی مذکورہ استعماری پالیسی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا وگرنہ وہ وقت دور نہیں جب دو صوبے ملک کے بیس خاندانوں ، چند جاگیرداروں ، اور ملکی دفاعی ادارے کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے ۔
دونوں صوبوں کی سیاسی جماعتوں کو کورونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ طبی ماہرین اور ذمہ دار شہریوں کو بھی اصل حقائق سامنے لا کر کر برسراقتدار طبقے کے خطرناک عزائم ناکام بنانے میں اپنی سماجی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور ہم سب مشترکہ جدوجہد سے ہی اس بھیانک مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔
♦