سید اکمل حسین
اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور بھائی جان کی اجازت سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف وطن واپس لوٹ آئے ہیں تاکہ پاکستانی قوم کو کرونا وائرس کے خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے کیسے نمٹا جا سکے۔
کیا واقعی وہ کرونا وائرس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے آئے ہیں یا شاہد خاقان عباسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر پارٹی کو سنبھالنے آئے ہیں۔یاد رہے کہ شاہد خاقان عباسی نے موجودہ حکومت کی ناکامیوں پر جو تھوڑی بہت تنقید کی ہے اس سے پارٹی میں ان کی مقبولیت بڑھی ہے ۔ حکومت کی جانب سے تیل و گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر اپوزیشن لیڈر کی خاموشی کے بعد سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ اب امپائر بھی بہت سیانا ہو گیا ہے کیونکہ اس نے اب کی بار نہ صرف وزیراعظم بلکہ اپوزیشن لیڈر بھی اپنا بھرتی کر لیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کرونا وائر س کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دوطریقے ہیں ایک جمہوری اور دوسرا غیر جمہوری ۔
جمہوری طریقہ تو یہ ہے کہ وہ بطور اپوزیشن لیڈر تمام اپوزیشن رہنماؤں سے مل کر اس خطرے اور بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرکے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے حکومت کو اس پر عمل درامد کرنے کا مطالبہ کریں اور کوئی وجہ نہیں کہ عوام ان کا ساتھ نہ دے۔
جبکہ غیر جمہوری طریقہ یہ ہے کہ وہ جرنیلوں سے خفیہ ملاقاتیں کرکے عمران خان کو نااہل ثابت کرنے کے لیے دلائل دیں جن سے متاثر ہو کر جنرل باجوہ انھیں کوئی اہم ذمہ داری سونپیں اور وہ کرونا وائرس سے عوام کو بچا سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شہباز شریف وہ کونسے اقدامات اٹھائیں گے؟
ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں لاک ڈاؤن کر رہی ہیں۔ اور عوام کی امداد کے لیے معاشی پیکج کا اعلان کر رہیں ہیں کیا شہباز شریف اس قسم کا کوئی پیکج تیار کر سکتے ہیں؟۔
پاکستان ایک غریب ملک ہے لہذا اسے ترقی یافتہ ملکوں کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ تمام ممالک اپنے ان شہروں کو مکمل لاک ڈاؤن کر رہے ہیں جہاں کرونا سے متاثرہ افراد کی اموات ہو رہی ہیں۔ اور لاک ڈاون کی صورت میں عوام کی مالی امداد کررہےہیں۔
کیا پاکستانی ریاست کے پاس عوام کی امدا د کے لیے کوئی وسائل ہیں؟
ایک بات تو طے ہے کہ شہباز شریف دفاعی اخراجات کو کم کرنے جیسی کوئی بات کرکے جرنیلوں کو تو ناراض نہیں کر سکتے۔ مزید ٹیکس لگانے کی گنجائش نہیں لہذا عمران خان کی طرح بھیک مانگنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے اور یقیناً عمران خان سے بہتر کارگردگی دکھا بھی سکتے ہیں۔، ہکلا ہکلا کر حبیب جالب کی نظمیں پڑھ کے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے اور عوام ان کی بات بھی سنیں گے کیونکہ عوام بہرحال عمران خان کی حکومت سے بہت تنگ ہے۔
اگر شہباز شریف کی ماضی کی سیاست کو دیکھا تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ شہباز شریف ہو ں یا نواز شریف وہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر کام کرنے کے عادی نہیں ہیں ۔ وہ پہلے مکمل اختیار مانگتے ہیں اور تن تنہا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شہباز شریف اور عمران خان دونوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ اپوزیشن سیاستدانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انھیں سڑکوں پر گھسیٹنے اور الٹا لٹکانے کی بڑھکیں مارتے ہیں۔
وفاقی حکومت کیا کرتی ہے یا شہباز شریف کی آنیاں جانیاں کیا غضب ڈھائیں گی۔ وہ میڈیا کی توجہ بھی حاصل کر لیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ میڈیا پر چھا بھی جائیں لیکن اس سے قطع نظر سندھ حکومت اٹھارویں ترمیم کی بدولت اپنے وسائل، جو کہ اس نے وفاق کو سرنڈر نہیں کیے تھے، اور گڈ گورننس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خطرے کا پوری جانفشانی سے مقابلہ کررہی ہے اور وفاقی کی طرف دیکھے بغیر اپنا کام خاموشی سے کررہی ہے ۔اسے میڈیا میں اپنی پروجیکشن سے زیادہ عوام کی خدمت میں دلچسپی ہے کیونکہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں اور سندھ حکومت کے اقدامات کا اعتراف کرنے کی ہمت عمران خان اور نہ ہی شہباز شریف رکھتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ شہباز شریف جو کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں وہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کونسا طریقہ اختیار کرتے ہیں؟ پارلیمنٹ، جرنیلوں سے ملاقات یا میڈیا مینجروں کے ذریعے گڈگورننس کے دعوے۔
♥