تحریر: گے سٹینڈنگ
انگریزی سے ترجمہ: خالد محمود
جب جنوری 1918 میں ھسپانوی فلو کی وباء شروع ہوئی تب دسمبر1920 میں اس کے اختتام تک چار کروڑ انسان لقمہ اجل بن چکے تھے۔اور امید ہے یہ سانحہ کرونا وائرس کے اختتام تک مختصر ہو جائے گا۔لیکن حیرت انگیز طور پر اس سے جُڑا معاشی بحران اس سانحے سے کہیں زیادہ سنگین ہو گا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک عالمی معاشی بحران ایک عرصے سے انتظار میں بیٹھا ہے۔یہ عالمی معاشی نظام پچھلی چار دہائیوں میں تشکیل ہوا ہے ۔ اگرچہ اُس وقت یورپ جنگ عظیم اول کی وجہ سے تباہ بھی ہوا تھا اس کے باوجود یہ 1918 سے کہیں زیادہ نازک صورت حال سے دوچار ہے۔ تب اس وقت کی نئی ابھرتی عالمی طاقت امریکہ کی معاشی حالت خاصی مضبوط تھی۔ اس وقت اس کا پرائیویٹ سیکٹر کا قرضہ قومی آمدن کاتقریباً پچاس فیصد تھا۔ اس کے بعد یہ مسلسل بڑھتا چلا گیا اور گریٹ ڈیپریشن تک 140 فیصد تک چلا گیا تھا۔
مقابلتاً،آج معاشی کساد بازاری بڑی تیزی سے شروع ہو چکی ہے جس سے عالمی سٹاک ایکسچینج نیچے گر گئی ہیں،چین کی فیکٹریاں اور دنیا کی دیگر صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔۔امریکہ کا پرائیویٹ سیکٹر کا قرضہ 150 فیصد سے اوپر جا چکا ہے جو کہ اس کے 2008 کے مالی بحران سے ذرا سا نیچے ہے۔اس کے علاوہ اس کے کارپوریٹ سیکٹر کا قرضہ پہلے سے بہت اوپر پہنچ گیا ہے ، جو اس کے GDP کا 73 فیصد ہے ۔
صنعتی پیداوار میں کمی سے وہ خلل پڑا ہے جس سے کسی ایک خطے کا خلل یا تعطل دنیا کے کسی دوسرے خطے کے خلل اور معطلی سے جڑا ہوا ہے۔کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کی فارچون 1000 کمپنیوں(دنیا کی بڑی کارپوریشنز) میں سے نوّے فیصد اس تعطل کا سامنا کریں گی۔
انفرادی سطح پر،دنیا کے تمام صنعتی ممالک میں، صنعتی پیداوار میں کمی ،کرونا وباء سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔
عام قارئین کے لئے،جو معاشیات سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ،اگرچہ ان کے نزدیک یہ اشاریے زیادہ اہم نہیں ہیں؛تاہم یہ ناقابل یقین معاشی خستہ حالی کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت ہر قومی معیشت میں کارپوریٹ اور پرائیویٹ سیکٹرز کے ہوشربا قرضے نمایاں خصوصیات ہیں۔
سادہ حقیقت یہ ہے کہ، آج ہم کرایہ دارانہ سرمایہ داری کے دور میں جی رہے ہیں جس میں زیادہ آمدن طبعی،مالی اور دانشورانہ املاک کے مالکان کی طرف بہہ رہی ہے ،جس سے ایک عالمگیر اکثریت ساختیاتی معاشی عدم تحفظ کا شکار ہوچکی ہے۔
جیسا کہ حالیہ ہفتوں میں نظر آ رہا ہے کہ سٹاک مارکیٹس کی گراوٹ اور صنعتی پیداوار میں تعطل اگر جاری رہتے ہیں تو کروڑوں بلکہ اربوں انسان کم آمدن کا شکار ہو جائیں جس سے وہ اپنے قرضے ادا کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔اور دیگرکئی لاکھ اپنی دولت میں کمی کے باعث اخراجات میں کمی کردیں گے جس سے طلب بھی مزیدکم ہو گی اور بے روزگاری بھی پھیلے گی۔
کسی بھی عالمی مندے کی وجہ سے کروڑوں انسان اُس معاشی عدم تحفظ میں دھکیل دیے جائیں گے جہاں وہ آج سے دس سال پہلے کم آمدنی اور غیر مستحکم قرضوں کے کنارے پر ٹکے ہوئے تھے ۔
معاشی عدم تحفظ کے دائرے کے اندر اور باہر،لاکھوں مزدور،عالمی وباء کے علاوہ، زندگی کی غیر یقینی صورت حال اور ریاستی عدم تحفظ ، بے روزگاری،بے گھری،ذہنی امراض،اموات ،مالی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی بھینٹ چڑھ جائیں گئے۔ یہ تمام مصیبتیں سماجی خستہ حالی کو مزید بد تر بنا دیں گی جس سے غلاظتیں پھیلیں گی اورانسانی دفاعی نظام مزید کمزور پڑ جائیں گے۔یہ تمام اثرات ،دولت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو غربت کی چکی میں پیس کے رکھ دیں گے۔سماجی اثرات میں انسانوں کی کثیر تعداد، گھروں میں بند ہونے پر مجبور ہو جائے گی جس سے کام سے تفریحی مقامات سے دوری کی وجہ سے معیشت اور کمزور ہو جائے گی۔
جس طرح 1914 میں آسٹریا کے شہزادے کا قتل وہ شعلہ تھا جس سے پہلی عالمی جنگ بھڑک اٹھی تھی حالانکہ یہ اس کی ساختیاتی اور بنیادی وجہ نہیں تھی۔اسی طرح سے یہ امکان ہے کہ کرونا وائرس کی یہ عالمی وباء وہ شعلہ بن جائے جس سے آنے والا عالمی معاشی بحران بھڑک اٹھے،حالانکہ یہ اسکی بنیادی وجہ نہیں ہوگی۔ جنہوں نے موجودہ عالمی معاشی نظام تشکیل دیا ہے اورہمیشہ اس کا دفاع کیا ہے انہیں اس معاشی بحران کو وائرس کے سر تھوپنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
ان حالات میں،پہلی معاشی ضرورت اس امر کی ہے وہ راستے تلاش کئے جائیں جس سے ہمارے اور دنیا کے معاشی،سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں لچک پیدا ہو سکے۔دنیا کی حکومتوں اور اداروں کو وہ غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں جو انہوں نے سن دوہزار سات اور آٹھ میں کی تھیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ایسے زہریلے ملاپ میں ملوث نہ ہوں جن میں سادگی اور کفایت شعاری کے منصوبے جو سرکاری خسارے کم کرنے کی خاطر لاگو کئے گئے تھے اور جن کی وجہ سے سوشل اخراجات اور سروسز کو بند کرنے سے سماجی ڈھانچوں کو کمزور کر کے عام آدمی کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا۔اور بد عنوان مقداری نرمی جس کی وجہ سے مرکزی بینکوں اور یوروپی مرکزی بینک نے کئی سو ارب یورو،ڈالر اور پائونڈ فنانشل مارکیٹس میں جھونک دیے تھے۔ان تمام سے فنانس کرنے والے، کمترین معاشی گروتھ اور عدم مساوت کی قیمت پرمزید امیر ہوئے تھے۔
ہم ماحولیاتی وجوہ کی بناء پر شاید معاشی گروتھ نہ چاہئیں مگر ہم مزید معاشی عدم مساوات ہر گز نہیں چاہتے ہیں۔
اس کی بجائے حکومتوں کو سٹاک مارکیٹس کو نظر انداز کر کے،فنانشل سیکٹر کو جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے ،حکومتی مداخلت کے بغیر غیر مسخ شدہ منڈیوں سے مطابقت پیدا کرنے دے۔انہیں حقیقت میں عام آدمی کے لئے زیادہ لچک پیدا کرنے دے۔
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہمارے سماجوں میں،ہر ایک کے لئے بنیادی آمدنی کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔ ایک جگہ جس نے پہل کی ہے وہ ہے ہانگ کانگ جس نے اپنے تمام شہریوں کو ’’ ون آف پر کیپیٹا‘‘ دس ہزار ہانگ کانگ ڈالر یا 1140 یورو دیے ہیں۔اگرچہ یہ رقم آمدنی میں پائیدار لچک کے لئے بہت تھوڑی ہے جس سے کئی لوگ ، ارادے کی کمزوری کی وجہ سے، یک مشت ختم کر سکتے ہیں۔
زیادہ مناسب پالیسی یہ ہو گی کہ ان حالات میں موقعے کی مناسبت سے بیسک انکم سسٹم کو کم از کم ابتدائی طور پر وباء کے خاتمے تک متعارف کیا جائے جس سے ہر قانونی شہری کو ،غیر مشروط معقول ماہانہ آمدنی اس کا حق سمجھ کر دی جائے ۔ماہانہ آمدن میں کساد بازاری کی شدت اور مجموعی طلب کے مطابق کمی بیشی ہو سکتی ہے جس سے فرد،خاندان اور کمیونٹی کو بڑی صحت مندلچک مل سکے گی۔
بیسک انکم میں بھی اسی طرح سرمایہ کاری ہو سکتی ہے جس طرح’’ مقداری نرمی‘‘ میں کی گئی تھی۔اگرچہ اس میں ماحولیاتی ٹیکس لگایا جا سکتا ہے جیسے کاربن ٹیکس وغیرہ جو نمایاں طور پر قابلِ برداشت ہوگا۔بنیادی آمدنی سے اُس طبی اور ماحولیاتی بحران سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملے گی جو آج کے دورکی پہچان ہے۔اس سے لوگوں کو ایسی جگہ کام پر نہ جانے کی آزادی ملے گی جہاںوہ سمجھتے ہوں کہ ان کی اوران کے عزیزوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے ۔اس سے ان اخلاقی اقدار کو فروغ ملے گا جن سے بلا وجہ گروتھ، گلوبل وارمنگ اور فطرت کے معدوم ہونے کے خوف میں واضح کمی آئے گی ، جس میں آج کل ہم سب بری طرح سے مبتلا ہیں۔ اس سے ہمیں وہ مدد ملے گی جس سے افراتفری کی زندگی کی رفتار کم ہو سکے گی اور ہم اپنے خاندان ااور مقامی کمیونٹی کو زیادہ وقت دے سکیں گے ۔
سرمایہ دارانہ کرایہ داری کے نظام کو رول بیک کرنے کے لئے دوسرے منصوبے بھی بنانا پڑیں گے۔جن کی گذر اوقات سٹاک مارکیٹ اور فنانس پر نہیں ہے انہیں پہلی ترجیح دینا ہوگی۔اور انہیں اس دفعہ اُس جھوٹے وعدے پر نہیں چھوڑنا کہ جب پرانے طریقوں سے معاشی گروتھ بڑھے گی تو اس سیآپ سب بھی مستفید ہوں گے۔
اس دفعہ کوئی سراب یا دھوکہ نہیں ہونا چاہئیے۔ہمیں اپنی حکومتوں کو بتانا ہے کہ یہ اب کر گذریں۔
♦