پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے، ملک میں مصدقہ کیسز کی تعداد چودہ سو سے زائد ہو چکی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے کو سیاست سے الگ کرکے قومی مسئلہ کے طورپر دیکھنے کو تیار نہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ عمران خان بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو کورونا سے متاثر چار بڑے ممالک کے سربراہان نے کی، امریکی صدر ٹرمپ اپنی قوم کو صورت حال کنٹرول میں ہونے کا جھوٹا دلاسہ دیتے رہے، اسپین میں کورونا وائرس کے کیسسز کی تصدیق کے باوجود عورت مارچ منعقد کرنے کی اجازت دی گئی، اٹلی کے عوام نے اپنی حکومت کی بات نہیں مانی اور حکومت نے بروقت لاک ڈاؤن نہیں کیا جبکہ ایران میں تو روحانی پیشوا اور حکومت دونوں نے ہی کورونا وائرس کی وبا کو امریکی سازش سمجھ کر عوام کو متنبہ کرنے کی بجائے تسلی اور دلاسے دیے۔
غیر معمولی صورت حال میں وزیراعظم عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ پچیس فیصد شہریوں کو درپیش ممکنہ خدشے کے باعث ایک سو فیصد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا یقینی بندوبست تو نہیں کر رہے۔ رفاعی تنظیموں کے اتنے بڑے نیٹ ورک کو استعمال کرنے کی بجائے رضا کاروں کی نئی فورس بنانے کا شوشہ بظاہر سیاست کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق چھبیس فروری کو کراچی میں ہوئی اور ایک ماہ ہی کے دوران یہ تعداد صوبہ سندھ میں چار سو چوالیس ہوچکی ہے لیکن پاکستان میں مجموعی طورپر کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد انتہائی برق رفتاری سے چودہ سو سے تجاوز کر چکی ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف پندرہ روز میں کیسز سندھ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
اس دوران سندھ حکومت ابتداء سے ہی اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے سنجیدہ اور متحرک نظر آئی اور اس حوالے سے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ قرنطینہ مراکز کا قیام ہو یا ایران سے آنے والے زائرین کے ٹیسٹ سندھ حکومت نے اب تک ہر کام بروقت کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کئی مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے لاک ڈاون کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے نہ صرف اس پر توجہ نہیں دی بلکہ قوم سے خطابات اور نیوز کانفرنس میں لاک ڈاؤن کو ملک کے پچیس فیصد سطح غربت سے نیچے رہنے والے افراد کے لیے قاتل قرار دے دیا۔
وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ”چین نے لاک ڈاؤن کیا کیونکہ چین دنیا کا دوسرا بڑا امیر ملک ہے، پاکستان جیسے ملک میں یہ ممکن نہیں کہ پورا ملک اچانک بند کردیا جائے، ہمارے پاس اتنا بڑا نیٹ ورک ہی نہیں کہ ہم چھوٹے، شہروں، قصبوں اور گاوں دیہات میں رہنے والے لوگوں کے گھروں پر راشن پہنچا سکیں، لوگوں کو خود رضا کارانہ طور پر گھروں پر رہنا چاہیے‘‘۔
وفاقی حکومت نے مطالبات پر کان نہ دھرے تو سندھ حکومت نے تئیس مارچ سے صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس پر عملدرآمد کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، مگر وزیراعظم نے اس کی بھرپور مخالفت کی، لیکن اگلے ہی روز پاکستان آرمی نے مرکزی حکومت کو بائی پاس کرتے ہوئے پنچاب، پھر خیبر پختونخواہ اور آخر میں بلوچستان نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔ یوں وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ بھی بلآخر لاک ڈاؤن پر مجبور ہوگئی۔
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں
ملک بھر میں یہ تالہ بندی مؤثر ہوتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ لوگ شاید گھروں میں بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔ صرف صوبہ سندھ میں گزشتہ پانچ روز کے دوران لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر تقریباﹰ دو ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ بلکہ نماز جمعہ کے اجتماعات منعقد کرنے والے پیش اماموں اور مساجد کی انتظامیہ سمیت پانچ سوسے زائد مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں، پھر بھی صوبائی حکومت کو کورونا کے حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہو رہی۔
ملک بھر کے علما نے صدر مملکت عارف علوی کو اختیار دیاکہ اسلامی ریاست کا سربراہ جمعہ کے اجتماعات پر پابندی عائد کرسکتا ہے لیکن صدر بھی اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی راہ پر چلتے ہوئے مشکل فیصلہ نہیں کر پائے اور سندھ حکومت کو یہ فیصلہ بھی تنہا ہی کرنا پڑ گیا۔
پاکستان میں صحت کی سہولیات کورونا وائرس سے پہلے بھی قابل زکر نہیں تھیں لیکن کورونا کی وبا کے بعد نہ صرف ڈاکٹرز بلکہ پیرامیڈیکل اسٹاف کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ کراچی کے دو بڑے ہسپتال عملاﹰ بند ہو گئے ہیں اور حکومت سندھ کو فوج کی مدد سے دس ہزار بستروں کا ہسپتال بنانا پڑا ہے۔ ایسے میں طبی عملہ بغیر کسی حفاظتی اقدام کے بہت زیادہ دیر تک خدمات سر انجام نہیں دے پائے گا۔
DW/web
♦