نیو یارک کرونا ڈائری۔ حسن مجتبیٰ
وہ اپنی تمام عمر جنرل کرنل اور وردی والوں کے خلا ف نعرے لگاتی رہی۔ وہ پاکستان میں تھی یا پاکستان سے باہر۔ “یہ جنرل کرنل بے غیرت” “یہ وردی والے بے غیر ت” ایسے نعرے جن سے جرنیلوں کی استری خراب ہو۔
سپریم کورٹ اسلام آ ٓباد میں،گیٹ کے سامنے بھی ججوں کی بحالی کیلے وکلا تحریک میں پولیس اور اسوقت کے فوجی آمر مشر ف کے ریاستی باوردی یا بے وردی غنڈوں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد ہو کہ ریپ کی شکار خواتین کے زخموں پر مرہم رکھنے والی ، میری جگری دوست ڈاکٹرا ٓمنہ بٹر اگلے مورچے پر رہی۔
اور اب بھی نیویارک میں تمام وباؤں کی ماں کرونا کے شکار انسانوں کو موت کے منہ سے نکالتے انکی زندگیاں بچانے کی جنگ میں دن رات اگلے مورچوں پر ہے۔
اب کے جنگ کا تصور بدلا ہے۔ سپاہی اور جنرل کا تصور بدلا ہے۔ اب جنگ کے میدان کے سپاہی، جنرل کرنل خاکی وردی والے نہیں، کمانڈوز نہیں سفید اور نیلے گاؤن والے ڈاکٹرز، نرسز، کلینکل سٹاف ،پروائیڈرز، پی ایز، اور صحت عامہ کے دیگر کئی ورکر ز ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی میں جریارٹکس کی اسسٹنٹ پروفیسر آمنہ بٹر اب ایک سپاہی کی طرح زندگیاں بچانے کے اگلے مورچوں پر ہے۔نیویارک یونیورسٹی لیگون ہاسپٹل کی ایک ہڈیوں کی پوری ہسپتال کو اب کرونا کے مریضوں کے شفاخانہ میں بدل دیا گیا ہے جس کی انچارج نہ فقط دن رات اس جنگ میں مصروف یہ سپاہن ہے لیکن اب سرکاری طور پر اس سفید گاؤن والی سپاہن کو جنرل بنادیا گیا ہے۔
ڈاکٹر آمنہ اب سرکاری طور پر کورونا سے زندگیاں بچانے والی اس فوج کی اسی ہسپتال میں جنرل ہے۔جب میری جگر ی اس دوست نے بتایا تو میں نے سوچا اب جنگ اور جنرل سپاہی اور سپاہ و سپہ سالار کا تصور بدلا ہے۔
ایک طرف ڈاکٹرز بنام کووڈ 19ہیں تو دوسری جانب کوورڈ آرمی، اب سبز پوش ولی یہ ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں۔
لیکن ہر لمحہ زندگیاں بچانے کی جنگ میں آمنہ فیک نیوز کا شکار ہوئی جس سے اسکی فیملی، دوستوں ،کامریڈوں اور نہایت ہی پیار کرنے والوں جن میں اسکی بیٹی بھی شامل ہے کے لیے اذیت کا موجب بنی جب اسکے اپنے بھائی نے یہ فیک نیوز فیس بک پر اڑائی کہ ڈاکٹر آمنہ بٹر اور اسکی ٹیم “کورونا ” پازیٹو ٹیسٹ ہوئی ہیں۔ یہ سراسر جھوٹی خبر ہے۔