پاکستان میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں وفاق اور صوبوں کے درمیان عدم تعاون اس وبا پر قابو پانے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔وفاقی حکومت متذبذب ہےکہ کیا کرنا ہے۔ وزیراعظم کو خود سمجھ نہیں آرہی ۔ غیر ملکی امداد کے تقسیم کو کوئی باضابطہ طریقہ کار نہیں ۔ جبکہ صوبے اپنے تئیں کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صوبہ سندھ اس وقت تک واحد صوبہ ہے جو اس وبا سے موثر طور پر نمٹ رہا ہے۔ جبکہ باقی تین صوبے سندھ کی نقل کرنے کی کوشش کر رہےہیں ۔
لاھور سے صحافی اور نیوز اینکر بینش سلیم کا کہنا ہے کہ، ”وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان تعاون کی شدید کمی نظر آتی ہے۔ کورونا وائرس ایک قدرتی آفت ہے، اس لیے ملکی مفاد کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں”۔
بینش سلیم کی رائے میں وزیراعظم کو صوبائی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “جب وزیر اعظم کی جانب سے یہ پیغام جائے گا کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، تو وزارتیں بھی اس پر عمل کریں گے۔ لیکن ابھی ایسا تعاون نظر نہیں آ رہا اور ہر صوبہ اپنے تئیں کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے“۔
اسلام آباد سے صحافی زاہد گشکوری کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو فنڈز نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ، ” تاثر یہ ہے کہ وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس اپنے وسائل ہیں اس لیے وہ اپنی لڑائی خود لڑیں“۔
صحافی ثاقب تنویر کا خیال میں صوبوں اور وفاق کے درمیان صورت حال کافی ابتر ہے۔ “سندھ اور وفاق کے درمیان رابطوں کا فقدان ہونا سمجھ آتا ہے کیوں کہ دونوں حکومتیں الگ جماعتوں کی ہیں مگر پنجاب اور وفاق کے درمیان بھی کوآرڈینیشن کی کمی ہے”۔
ثاقب کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی ٹسیٹنگ پر پنجاب اور وفاق کے اعداد و شمار ایک نہیں ہیں اور وفاق میں صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا تو پنجاب کے ٹیسٹوں کی تعداد پر سوال اٹھا چکے ہیں۔
پاکستان میں تین ہزار سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور پچاس افراد اس وائرس کے حملے کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ کیسز صوبے پنجاب میں سامنے آئے، جہاں کل مریضوں کی تعداد قریب سترہ سو ہو گئی ہے۔
پنجاب میں کیسز کی بڑی تعداد کی ایک وجہ تبلیغی جماعت کی جانب سے رائیونڈ میں منعقد اجتماع قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اجتماع میں شریک چار سو سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس اجتماٰع پر پابندی کا اطلاق نہ عائد کرنے پر بھی پنجاب اور وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پنجاب کے بعد سب سے زیادہ کیسز سندھ میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت بھی یہ الزام عائد کر چکی ہے کہ اس بحران میں اسے وفاقی حکومت کی جانب سے متوقع مدد نہیں ملی۔ ادھر بلوچستان میں ڈاکٹرز حفاظتی سامان کی کمی کے باعث سراپا احتجاج ہیں۔
صحافی زاہد گشکوری کے مطابق “لگتا ہے کہ جیسے وفاقی حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ پہلے انہوں نے لاک ڈاون پر تذبذب دکھایا۔ پھر جس ریلیف پیکیج کا اعلان کیا وہ بھی عوام تک نہیں پہنچ پا رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ صوبے اپنی جنگ خود ہی لڑ رہے ہیں۔“۔
DW/Web desk