کوئٹہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے حفاظتی ساز و سامان کا مطالبہ کرنے والے درجنوں ڈاکٹروں کو احتجاج کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اب پاکستانی فوج نے انہیں مطلوبہ ساز و سامان فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت یکسر ناکام ہوچکی ہے اور معاملات فوج کے ہاتھوں میں ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر وفاقی یا صوبائی حکومت اپنے حصے کا سامان کیوں نہ لے سکی؟ کیا پاکستان آرمی اس سامان کو اپنی ترجیحات کے مطابق تقسیم کرنا چاہتی ہے؟
یاد رہے کہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پیر کے روز سینتالیس ڈاکٹروں کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ اپنے لیے حفاظتی سامان کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کے مطابق گرفتار کیے گئے ڈاکڑوں کو پیر کے روز ہی رہا کر دیا گیا تھا۔
منگل کو پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، “کوئٹہ کے لیے طبی ساز و سامان کی ہنگامی ترسیل کی جا رہی ہے اور اس میں “پی پی ای” یعنی ذاتی حفاظت کا سامان بھی شامل ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جبکہ ان کے کچھ ساتھیوں کو مارا پیٹا بھی گیا۔
تاہم ان ڈاکٹروں نے خوف کی وجہ سے نیوز ایجنسی اے اپی کو ان کے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے دو ڈاکٹر ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پاکستان کے پاس طبی ساز و سامان کی بھی قلت ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کورونا وائرس کے چار ہزار سے زائد مصدقہ کیس سامنے آ چکے ہیں جبکہ ہلاکتون کی تعداد چون بتائی گئی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ ہی بہت کم کیے جا رہے ہیں اور متاثرہ مریضوں کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا ہمسایہ ملک چین بھی کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ حالیہ دو ہفتوں کے دوران چین نے نہ صرف امدادی سامان پاکستان کو فراہم کیا ہے بلکہ اس نے اپنے ماہر ڈاکٹروں کو بھی پاکستان بھیجا ہے تاکہ مقامی طبی ماہرین کی مدد کی جا سکے۔
گزشتہ روز پاکستان پہنچنے والے چینی ڈاکٹروں نے لاہور میں حکومتی عہدیداروں اور طبی عملے کو مشورہ دیا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو جلد از جلد روکا جانا ضروری ہے۔ چینی ڈاکٹر مامنگ ہوئی نے بتایا کہ گرمی میں بھی کورونا وائرس کے پھیلنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چینی وفد نے کہا کہ سماجی فاصلے کورونا وائرس سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور کم از کم اٹھائیس دن کے لیے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور پھر محتاط انداز میں مرحلہ وار لاک ڈاؤن کی پابندیاں صورتحال دیکھ کر نرم کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں چودہ اپریل تک لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا تھا۔
DW/Web Desk