بیرسٹرحمید باشانی
کورونا کےخلاف جنگ جاری ہے۔ دنیابھرمیں انسان کواس آفت سے بچانے کے لیےجنگی بنیادوں پرکاروائیاں ہو رہی ہیں۔ بری خبروں کےاس اداس دورمیں اچھی خبریہ ہےکہ دنیا بھرمیں بہت بڑی تعداد میں انسانی زندگیاں بچائی جا رہی ہیں۔ ہرروزاس جنگ میں انسانی صلاحیت ومہارت بڑھ رہی ہے، اوریہ جنگ جیتنے کےامکانات بھی روشن ہورہےہیں۔
کورونا کے خلاف لڑائی کی ہرملک کی اپنی داستان ہے۔ اپنےاپنے اعداد وشمار ہیں۔ اس لڑائی میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ عام آدمی سے لیکر اہل حکم تک سب کا بڑا کردار ہے۔ مگر اس جنگ کے اصل ہیروزڈاکٹرز، نرسیں اورصحت وطب کے شعبے سےجڑے دوسرے افراد ہیں، جواگلے مورچے پر لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ہیروزیہ لڑائی لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ بہت بڑے جانی مالی نقصان کے باوجود انسان یہ لڑائی جیت رہا ہے۔ ہرملک اپنے اپنےحالات کےمطابق کامیابی کی نوید دے رہا ہے۔ ان ممالک میں کینیڈا بھی ہے۔
کورونا بحران سے پہلے کینیڈا کی معیشت اورنظام صحت کوجی سیون میں سب سے بہتربلکہ قابل رشک سمجھا جاتا تھا۔ کورونا نے حملہ کیا تو کینیڈامعاشی طور پرمستحکم اورخوش حال ملک تھا۔ اس کی تجوریاں بھری ہوئیں تھیں۔ چنانچہ کورونا کے خلاف اس کا ردعمل بھی قابل رشک اور پراعتمادتھا۔ اس نے اپنے دنیا کے بہترین نظام صحت اورنطام زرکوجنگی بنیادوں پرمتحرک کر دیا۔ اپنی معاشی خوشحالی کی وجہ سے اس نے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ لاک ڈوان اور “جسمانی فاصلہ” رکھنے کی پالیسی کے نتیجے میں لوگوں کے لیے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے حل کے لیے مرکزی حکومت نے ایک سو دس بلین ڈالرکا پیکیج پیش کردیا۔
مرکز کےعلاوہ صوبوں اورمقامی حکومتوں نے اپنےاپنے پیکیج دیے۔ لوگوں کوروزہ مرہ کی ضروریات، کرائے، مارٹ گیج اوربلوں کی ادائیگی کےفکر سے آزادی کے لیے مقامی، مرکزی حکومتوں اوربینکوں نے تسلی بخش اعلانات کردیے۔ اتنے بڑے وسائل اورقابل اعتماد نظام کے ساتھ تقریبا چھ ہفتوں کی اس جنگ کے بعد کینیڈا کے سب سے بڑے اورگنجان آباد صوبےانٹاریونے کورونا کے حوالے سےایک خاکہ پیش کیا۔ اس صوبے کی صحت عامہ کے سربراہ ڈاکٹر پیٹر ڈونلے نے بتایا کہ ہم نے جو اقدامات کیےوہ اگرنہ کرتے تو کتنے لوگ مر سکتے تھے۔ اور ہم نے یہ اقدامات کرکہ کتننے لوگوں کی جان بچائی ہے۔
چنانچہ کورونا کےخلاف ہم یہ جنگ جیت رہے ہیں۔ لیکن اس جیت کے لیے مزید سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران اس صوبے میں اندازا تین ہزارسے پندرہ ہزارتک لوگ مرسکتےہیں۔ اوراپریل کے آخر تک یہاں اموات کی تعداد سولہ سوتک ہو جائے گی۔ لوگوں کو ڈراورخوف سے نکالنے کے لیے ڈاکٹر ڈونلے نے کہا کہ ایک عام سال میں اس صوبے میں عام نزلے زکام کی وجہ سے ایک ہزار تین سو پچاس کے قریب لوگ مرجاتے ہیں۔ ایک بہت ہی برے سال میں یہ تعداد پندرہ سوتک پانچ سکتی ہے۔ لہذا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
مگراس آفت کو نزلے اور زکام سے کئی زیادہ سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔ اگرہم سکول اورپارک نہ بند کرتے۔ شہریوں کی نقل حرکت اوراجتماع پر پابندی نہ لگاتے، کاروباربند نہ کرتے، اور لوگوں سے گھروں کےاندر رہنے کا مطالبہ نہ کرتے، تواس صوبے میں اگلے اٹھارہ سے چوبیس مہینوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد لوگ مر سکتے تھے۔ اس لیے یہ صوبہ کورونا کی گولی کو “ڈاج” کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس حساب کتاب کےمطابق ہم پچاسی ہزارجانیں بچانےمیں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ اچھی خبرہے۔
دوسری طرف یہ اعداد و شماردیکھ کر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا اتنا تباہ کن نہیں ہے، جتنااس کا خوف پھیل گیا ہے۔ اگراموات کی شرح ہرسال نزلہ زکام سے مرنے والوں سے زیادہ نہیں تو پھراس قدرہنگامہ کیوں؟ اس کا جواب کچھ لوگ یوں دیتے ہیں کہ کورونا جس غیرامتیازی اندازمیں حملہ آور ہوا ہے ، اس سے یہ کسی ایک طبقے، مذہب، رنگ ، نسل یاعلاقے کے لوگوں کا مئسلہ نہیں رہا، بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ مئسلہ بن گیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے دنیا کی معیشت کا پہیہ جام کردیا۔ بات اگر صرف موت یا موت کے خوف کی ہوتی تودنیا میں روزانہ صرف بھوک کی وجہ سے کتنے لوگ مرتے ہیں؟
اقوام متحدہ کی تنظیم برائےخوراک و زراعت کے مستند اعدا وشمار کے مطابق ہماری اس دنیا میں 795 ملین لوگوں کو صحت مند زندگی گزانے کے لیےمناسب خوراک میسر نہیں ہے۔ کورونا سے آج تک، یعنی یہ سطور لکھنے تک، کل ملا کرپوری دنیا میں سترہزار کے قریب لوگ مرے ہیں۔ مگر ہماری اس دنیا میں ہرروزتقریبا پچیس ہزارلوگ بھوک سے مرجاتے ہیں۔ اگر آپ اس کی جمع تفریق کریں تو انداز ہرسال نواعشاریہ ایک ملین لوگ بھوک سے مرتے ہیں۔
مگراس تباہ کن اور خوفناک مسئلے پردنیا میں شاید اس لیے ہنگامہ برپا نہیں ہوتا کہ بھوک سے مرنے والے زیادہ ترلوگ دنیا کےغریب ممالک کے ہوتے ہیں، جہاں کل آبادی کا اندازپندرہ فیصد بھوک اورخوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اگراس مسئلے کو ہم براعظموں میں تقسیم کرکہ دیکھیں تو بھوک سے مرنے والے لوگوں کی کل آبادی کا تیسراحصہ براعظم ایشیا میں آباد ہے۔ اوربراعظم ایشیا میں بھی ان لوگوں کی اکثریت پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اورچین میں آباد ہے۔
بھوکوں کی کل تعداد کے اعتبار سے ایشیا یا جنوبی ایشیا پہلے آتا ہے، مگراگر آبادی کے تناسب سے دیکھاجائے تو افریکہ میں ہرچار میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہے۔ یونیسف کےاعداد و شمار کے مطابق دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک سو پیسنٹھ ملین بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی نشونما متاثر ہوتی ہے۔ گویا ہرچار میں سے ایک بچہ بھوک کا شکار ہے۔ بھوک کے شکاران بچوں میں سے اسی فیصد صرف چودہ ممالک میں آباد ہیں، جن میں ایشیا اور افریکہ کے ممالک سر فہرست ہیں۔ ان میں سے تین چوتھائی دیہاتوں میں آباد ہیں، جہاں کی معشیت زراعت کے گرد گھومتی ہے۔
کم خوراکی کی وجہ سے ہر سال دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے تین ملین سے زائد بچے مر جاتے ہیں، یعنی روزانہ آٹھ ہزارپانچ سو بچےخاموشی سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اموات چونکہ نیویارک، پیرس اور لندن جیسے فیشن ایبل اورحساس شہروں کے بجائے تیسری دنیا کےدوردرازاورگمنام دیہاتوں میں ہوتی ہیں، اس لیے ان اموات پر کوئی ہنگا مہ اور شورشرابہ نہیں ہوتا۔ یہ اموات صرف بچوں تک ہی محدود نہیں تیسری دنیا میں عورتوں اورعمرہ رسیدہ افراد کی ایک بڑی تعداد کم خوراکی یا ناقص خوراکی کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔
جہاں تک بیماریوں سے اموات کا تعلق ہے تو ہم روزانہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔2016 کے اعداد وشمار کے مطابق اس سال دنیا میں چھپن اعشاریہ نوملین لوگ مختلف قسم کی بیماریوں کی وجہ سے فوت ہوئے۔ ان بیماریوں میں ہارٹ اٹیک، سٹروک سے لیکر ٹی بی تک دس عام اورخطرناک بیماریاں شامل ہیں۔ یہ بات عیاں کہ کورونا کی نسبت، بھوک، ننگ اوربیماریوں سے ہزاروں گنا زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ مگر وہ ایک ایک کر کہ خاموشی سے موت کے منۃ میں جاتے ہیں۔
ان اموات کے باوجود دنیا کا معمول کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ کوئی سٹاک مارکیٹ کریش نہیں ہوتی۔ کوئی کارخانہ نہیں بند ہوتا۔ کورونا کا خوف صرف موت سے نہیں جڑا ہے۔ کورونا کا شکار ہو کر اٹھانویں فیصد لوگ موت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ صرف وہ لوگ موت کا شکار ہوئے، جو پہلے سے دل یا پھیپھڑوں یا کنیسراوردیگرسنگین بیماریوں کا شکار تھے۔ چنانچہ یہ صرف زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہے۔
کورونا کے خوف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے انسانی زندگی کو تہہ وبالا کرکہ رکھ دیا۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ بازار ویران ہیں۔ کلب اور بارزبند ہیں۔ دوکانوں پرتالے ہیں۔ سٹاک مارکیٹس تباہ ہیں۔ لوگوں کے بینک اکاونٹ خالی ہیں۔ حکومتوں کے خزانے خالی ہو رہے ہیں۔ کینیڈا جیسے ملک جنہوں نے دس پندرہ سال کی سخت جہدوجہد اور بچت کے بعد خسارے کے بجٹ سے نکل کر اپنے خزانے بھرے تھے، وہ بھی آنے والے کئی برسوں تک خسارے کے بجٹ لائیں گے۔ اوران کو واپس استحکام اور خوش حالی کی اس سطح پرآنے کے لیے شاید کئی برس لگ جائیں۔
تباہ کن واقعات میں کسی پوشیدہ حکمت کے خیال پر یقین نہ رکھنے کے باوجود جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ بنی نوع انسان کورونا کی تباہی سے کچھ تو سبق سیکھے گا۔ اورشاید مستقبل میں اہل حکم صحت کا بجٹ بناتے وقت تھوڑی زیادہ دانشمندی کا مظاہرہ کرنے پرمجبورہوں۔ اورعوام میں یہ شعور آئے کہ صحت کا بجٹ ان کے لیے زندگی وموت کا مسئلہ ہے۔
♦