سنگین ولی
یہ دھرتی بھوک کی دھرتی ہے۔بھوکے یہاں کے باسی ہیں۔جو چیز یہاں پہ سب سے زیادہ پائی جاتی ہے وہ ہے بھوک۔ اور ہر طرح کی بھوک یہاں پر آپ کو مل جائے گی ۔دولت کی بھوک،شہوت کی بھوک،شہرت کی بھوک، اور بھی سینکڑوں قسم کے بھوک یہاں پر پائے جاتے ہیں ۔اور یہ جو بظاہر سرمایہ دار دکھائی دینے والے شرفا اور سفید پوش ہیں یہ سب سے زیادہ بھوکے ہیں۔پیسہ تو ان کے پاس بہت ہے مگر دل کے بھوکے اور مفلس ہیں۔یہاں شہوت کے بھوکے ہیں ۔مشہور اور معروف لوگ شہرت کے بھوکے ہیں۔اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے یا کم ہے وہ تو ہیں ہی بھوکے۔
آپ کہیں گے نہیں یہاں تو دولت کی ریل پیل ہے ،لوگ بڑے خوشحال ہیں۔مالی وسائل کی فراوانی ہے۔بڑی اور اونچی خوبصورت عمارتوں سے شہر آراستہ ہیں۔لوگ رنگ برنگی ،چھوٹی بڑی، طرح طرح کے گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔۔ہر چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں قیمتی موبائل ہے۔کسی کو کوئی مالی پریشانی نہیں ہیں۔ ہاں البتہ ہر گاؤں اور قصبے میں غریب ہوتے ہیں مگر قلیل تعداد میں ،باقی سب خوشحال اور سرمایہ دار ہیں۔
نہیں بھائی آپ بالکل غلط ہیں ۔یہاں پہ کوئی سرمایہ دار نہیں کوئی دولتمند نہیں ہے سب بھوکے ہیں۔ جو مالی وسائل کے لحاظ سے سب سے بڑا سرمایہ دار اور دولتمند ہے وہ سرمایہ دار نہیں بھوکا ہے، بھوک اور حرص میں سب سے آگے ہے۔وہ حریص ہے، لالچی ہے ،غریبوں کا حق مارتا ہے،غریبوں کو اپنے مال میں سے کچھ نہیں دیتا ،غصہ نہیں ہونا بھائی!اگر پھر بھی آپ اس کو سرمایہ دار سمجھتے ہو تو آپ بالکل غلط ہیں۔
یہاں پہ ظاہری زردار اور سرمایہ دار تو بہت ہیں مگر غریبوں اور ضرورت مندوں کو دینے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ غریبوں اور ناداروں کے حقوق مارنے والے یہی زردار،صنعتکار اور سرمایہ دار گدھ ہیں تو بیجا نہیں ہوگا۔یہ زردار غریبوں کو کچھ نہیں دیتے کیونکہ یہ خود بھوکے ہیں، دس پندرہ حج اور عمرے کرنے والوں کے ہمسائے بھوکے ہو تو ان کو کیا پرواہ۔ان کو تو جنت کی تلاش ہے ۔اگر کھوج لگایا جائے تو یہ دولت بھی حرام کی کمائی ہوگی،وہ نو سو چوہے کھاکے بلی حج پر چلی گئی والی بات ہے۔
اصل سرمایہ دار تو وہ ہے جس کا دل غنی ہو ۔جس کے دل و دماغ پر بھوک سوار نہ ہو۔ جو حرص مند نہ ہو ۔لالچ جس کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔حقیقی دولت مند تو سخی ہوتا ہے۔دولت بانٹتا رہتا ہے ۔دوسروں کے کام آتا ہے۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یتیموں اور بیواؤں کا مسیحا ہوتا ہے ۔جب کوئی سائل اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو وہ دل کھول کر دیتا ہے تب وہ واقعی سرمایہ دار اور، دولتمند بن جاتاہے۔
یہاں شہوت پرستوں کے ریوڑ گھوم رہے ہیں ۔اور نہ یہاں شہوت کے بھوکوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔معاشرے کی اکثریت شہوت کی سمندر میں تیر رہی ہیں۔ان بھوکے شہوت پرستوں کو پردہ دار عورت بھی ننگی نظر آتی ہے۔عورت جدھر نظر آئے یہ شکاری کتوں کی طرح پیچھاکرتے ہیں۔بازار میں گھومنے والی عورت کو یہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح گھورتے ہیں چھیڑتے ہیں،فقرے کستے ہیں اور ہاتھ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اگر آپ کو اعتراض ہے تو میں آئے روز چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو یاد دلاتا ہوں۔کیا آپ کو نہیں معلوم کہ یہ نام نہاد مسلمانوں کا دیس عورتوں کیلئے جہنم سے بدتر ہے؟ یہاں پہ عورتوں کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوتا؟ گھر سے لیکر سکول ،سکول سے یونیورسٹی،یونیورسٹی سے بازار ،بازار سے لیکر دفتر غرض عورت کیلئے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ہمارا ملک سب سے زیادہ پورن دیکھنے والے ممالک میں دوسرے تیسرے نمبر پر ہے۔بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں ہے۔تیزاب گردی اور غیرت کے نام پہ قتل پر تو یہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہی تو بھوک ہے۔
اور جو واقعی غریب ہیں ،مفلس ہیں نادار ہے وہ تو ہیں ہی بھوکے ۔بدقسمتی سے دنیا میں دو خطے اس وقت غربت میں سب سے آگے ہیں ایک ہے افریقی صحرائی خطہ اور دوسرا ہمارا جنوبی ایشیا۔۔ان دو خطوں میں غربت کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔اورتعلیم کی شرح انتہائی کم ، بنیادی وسائل کا فقدان ہے ۔لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔۔
اور اگر اس غربت اور افلاس کے عوامل ڈھونڈھنے کی کوشش کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ غربت قدرتی نہیں ہے بلکہ مصنوعی ہے۔انسان نما گدھوں نے یہ دولت اور وسائل چوسے ہیں۔یہ سرمایہ دار اور زردار ہی ہے جنہوں نے مقامی لوگوں کو فاقوں پر مجبور کیا ہے۔ حالانکہ قدرتی وسائل کی یہاں کوئی کمی نہیں ہے مگر پھر بھی یہاں بھوک اور افلاس کا راج ہے ۔۔
♦
2 Comments