محمد شعیب عادل
ثقلین امام سے دوستی تو نہیں البتہ واقفیت تھی۔ لاہور میں مختلف مظاہروں یا سیمینارز میں آتے جاتے ہیلو ہائے ہوتی۔ پھر وہ بی بی سی لندن تشریف لے گئے کافی عرصے بعد فیس بک پر رابطہ ہوا۔ سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹس پر نوک جھونک ہوتی رہتی تھی۔ کل ایک پوسٹ پر میرے کمنٹ پر ان کےبھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور مجھے بلاک کردیا۔اس سے پہلے ارشد محمود اور لندن کے ایک وکیل نما ٹرول نے بھی بلاک کردیا تھا۔ اول الذکر نے ہتھ ہولا رکھا لیکن ثانی الذکر نے روایتی ملا والی فحش زبان استعمال کی۔ فیس بک پر ان فرینڈ کرنا یا بلاک کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ میں نے بھی مختلف مواقع پر اپنی فرینڈز لسٹ میں کئی افراد کو ان فرینڈ اور بلاک کیا ہے۔
یہ کوئی سال 1999 کا ذکر ہے جب وزیراعظم نواز شریف نے روزنامہ جنگ پر سختیاں شروع کیں ۔ میں صحافت میں نووارد تھا جبکہ ثقلین امام سکہ بند صحافی تھے اور ٹریڈ یو نینسٹ تھے ۔ شاید لاہور پریس کلب یا کسی صحافتی تنظیم کے صدر بھی رہ چکے تھے۔ ان دنوں روزنامہ جنگ میں ملازم تھے اور آزادی صحافت کی لڑائی لڑ رہےتھے۔ ان کی تحریریں تو پڑھی نہیں تھیں لیکن ان کی مظاہروں میں پرجوش شرکت سے میرا تاثر یہی بنا تھا کہ وہ اینٹی ایسٹبلشمنٹ ہیں۔
پھر وہ بی بی سی لندن چلے گئے اور کافی سالوں بعد فیس بک پر رابطہ ہوا تو ان کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔ اور میرے ذہن میں ان کے متعلق جو تاثر بنا ہوا تھا وہ زائل ہونا شروع ہوگیا۔ وہ اپنی پوسٹس پر اس با ت کا کھل کر اظہار کرتے ہیں کہ جب سیاست دان ناکام ہوں گے تو پھر فوج تو آئے گی ہی نہ ۔۔کبھی کبھی میں ان کی کسی پوسٹ پر اپنا کمنٹ کردیتا تو نوک جھونک شروع ہوجاتی۔ بہرحال معاملہ ناراضی تک نہ جاتا۔
کل ہی آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے کرونا وائرس کی وجہ سے معیشت کو ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا اعلان کیا تو ثقلین امام نے لکھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو غریب ممالک کا قرضہ معاف کردینا چاہیے(یہ ان کی لمبی پوسٹ کا خلاصہ ہے)۔میں نے بھی حسب عادت کمنٹ کیا کہ باقی ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستان کے اگر تمام قرضے بھی معاف ہو جائیں تو اس نے بھکاری ہی رہنا ہے۔ جس پر انور اقبال نے کمنٹ کیا کہ بھئی آپ غصہ کیوں ہوتے ہیں ہم قرضے نہیں معاف کرواتے۔ جواباً میرا کمنٹ یہ تھا کہ اگر کوئی صحافی ایسٹبلشمنٹ کی لائن چلائے گا تو پھر بولنا پڑتا ہے۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ثقلین امام نے مجھے ان فرینڈ اور پھر بلاک کردیا۔ اور میں مزید ان کے ارشادات عالیہ پڑھنے سے محروم ہو گیا۔
بی بی سی کا ذکر آیا تو ضمناً ایک اور بات یاد آگئی کہ نیا زمانہ کے آغاز کے دن ہی تھے کہ ان دنوں لاہور میں شاہد ملک صاحب سے میل ملاقات شروع ہوئی۔ شاہد ملک ان دنوں بی بی سی کے لیے کام کررہے تھے۔میرے سامنے نیا زمانہ کی تعریف ہی کرتے اور شاید ایک آدھ دفعہ ایڈیٹر کے نام خط بھی لکھا تھا۔ خبروں کی رپورٹنگ کے متعلق اپنے تجربے سے مستفیض کرتے۔ میں اکثر ان سے پوچھتا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کہ کشمیر کے مسئلے پر بی بی سی اردو ڈنڈی مار جاتا ہے تو مسکرا کر کہتے تھے کہ بھئی بی بی سی میں بھی کئی دفعہ خبر کو غیر محسوس انداز سے ٹوسٹ کردیا جاتا ہے۔
پاکستان کے لیفٹ کے حلقے مغربی سامراج پر لعن طعن کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں پاکستان کے قرضے معاف کردینے چائیں۔ اس سلسلے میں ایک دوست عبدالخالق ہیں شاید کامریڈ بھی ہیں انھوں نے بھی قرضے معاف کروانی والی اپنی این جی او بنا رکھی ہے۔ کامریڈ فاروق طارق کے سوشلسٹ سکول میں اپناتھیسیس پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کیسے سامراج نے پاکستان کی معاشی صورتحال کو درست نہیں ہونے دیتااور اسے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ لیکن ان دوستوں کو چین کی طرف سے دیئے گئے بھاری سود پر قرضے یاد نہیں رہتے۔ماہر معاشیات عاطف میاں کے مطابق چین نے پاکستان کو جوقرضے دیئے ہیں ان کی شرح سود بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے زیادہ ہے۔
کامریڈ فاروق طارق جذباتی ہو کر ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر کہتے ہیں کہ یہ ناجائز قرضے معاف ہونے چاہییں۔ میں نے جب ایک دو دفعہ فاروق طارق سے یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ ناجائز اور جائز قرضوں میں کیا فرق ہے تو انھوں نے بھی مجھے پچھلے سال بلاک کردیا تھا۔ ایک اور کامریڈ ڈاکٹر تیمور رحمان نے بھی اسی طرح کی چھچھوری حرکت پر ناراض ہو کر ان فرینڈ کردیا تھا۔لہذا اب میں پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو پا رہا۔ کچھ یار دوست ان کی چوندی چوندی پوسٹ مجھے بھیجتے ہیں مگر اپنے آپ پر ضبط پانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ حالات قابو میں رہیں۔
جہاں تک غیر ملکی قرضوں کا معاملہ ہے تو میرا یہ موقف رہا ہے کہ قرضے کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اگر یہ قرضے کسی پیداواری سرگرمی میں استعمال ہونے کی بجائے غیر پیداواری اخراجات کی نذر ہونگے تو پاکستان قرضے معاف کروا کر بھی بھیک مانگے گا۔ لہذا ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ جب تک ریاست اپنے غیر پیداواری اخراجات یعنی دفاعی اخراجات ختم نہیں کرے گی ، ہمسایہ ممالک سے دوستی اور دوطرفہ تجارت نہیں کرے گی پاکستانی ریاست بھکاری ہی رہے گی۔
لہذا جب مختلف حلقوں سے قرضے معاف کرنے کے مطالبے یا بڑھکیں ماری جاتی ہیں تو یہ دراصل پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کی غلط کاریوں پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔
♦
One Comment