کیا وجہ ہے کہ پاکستانی مولوی جو اسلام کے حوالے سے سعودی عرب کی پیروی کو عین فرض سمجھتا تھا اور سعودی عرب کو ایک آئیڈیل اسلامی ملک قرار دیتاتھا اب کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال میں سعودی عرب نے عبادت گاہوں اوردینی فرائض کی ادائیگی کے بارے میں جو اقدامات کئے ہیں ان کو ماننے سے انکاری ہے۔
ایک مولوی نے تو یہ جواب دے کر سعودی عرب کے اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے کہ ان کے اور ہمارے زمینی حقایق مختلف ہیں لہذا ہمارے اور ان کے اقدامات کی نوعیت بھی مختلف ہوگی۔ انھوں نے یہ کہہ کر دراصل اسلام کی بین الاقوامیت کے تصور کوغیر شعوری طورپر تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسلامی احکامات کو مقامی حالات کے تابع بتایا ہے۔
پاکستان کے مولوی اور سعودی بادشاہت کے مابین ابتدائی روابط 1970 کی دہائی میں شروع ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب تیل کی پیداوار میں اضافے سے حاصل ہونے والی دولت کے سبب سماجی اور معاشی زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کا پہیہ پوری رفتار میں حرکت میں آگیا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب پاکستان کے لاکھوں محنت کش روزگار کی تلاش میں سعودی عرب اور مشرق وسطی کی دیگر تیل پیدا کرنے والی مطلق العنان ریاستوں میں گئے تھے۔
سعودی عرب اوردیگر ریاستیں چاہتی تھیں کہ یہ محنت کش اپنے حالات کار اور اوقات کار میں بہتری کے لئے کسی قسم کی جدوجہد کی طرف متوجہ نہ ہوں اور انھیں ہر صورت قابو میں رکھا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سعودی عرب کی حکومت نے مذہب کے آزمودہ نسخے کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ تاریخ کے ہر دور میں عوام کی جدوجہد کو راستہ کھوٹا کرنے کے لئے حکمرانوں نے مذہب اور مذہبی رہنماؤں کو استعمال کیا ہے۔
سعودی بادشاہت نے بھی مذہب کے استعمال کوبطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا تو اسے مولوی کی خدمات کی ضرورت پڑی چنانچہ پاکستان کے مولوی کی لاٹری نکل آئی۔ مولوی نے سعودی ریال کے عوض پاکستانیوں کو یہ باور کروایا کہ سعودی عرب ایک مکمل اسلامی ملک ہے وہاں بادشاہت اسلامی شریعت کے مطابق نظام حکومت چلارہی ہے۔ سعودی عرب کی مخالفت دراصل اسلام کی مخالفت ہے کیونکہ بادشاہت اسلام اورمقاما ت مقدسہ کی نگہبان ہے۔
مولوی کے نزدیک سعودی بادشاہت کی حمایت اسلام کی حمایت قرار پائی اور اس کی مخالفت کو اس نے اسلام کی مخالفت کو قرار دے دیا۔۔ سعودی عرب اور مشرقی وسطی کے شیخوں کی حکومت نے مولوی کی خوشنودی کے خاطرپاکستان میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں دل کھول کر سرمایہ کاری کی اورہرچھوے بڑے شہر میں بڑی بڑی عالیشان مساجد اورمدارس قائم ہونا شروع ہوگئے۔مولوی جو پہلے سا ئیکل سے محروم ہوا کرتا تھا اب جدید ماڈلز کی گاؑڑیوں میں گھومنے لگا۔ ہرسال سرکاری خرچے پر حج اور عمرہ اس کا معمول قرار پایا۔ سرکار دربار میں اس کی پذیرائی اس کے علاوہ تھی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے مولوی کے تعلق میں نیا موڑ فروری 1979 میں اس وقت آیا جوب خمینی کی قیادت میں ایران میں شیعہ پیشوائیت نے شاہ کا تخہ الٹ کر اپنی حکومت قا ئم کرلی ۔ خمینی اپنا شیعہ انقلاب دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کرنے پر یقین رکھنتے تھے۔ اس سے خوف زدہ سعودی عرب اور مشرق وسطی کی دوسری ریاستوں نے پاکستان کے مولوی جو پہلے ہی ان کی ملازمت میں تھا کی ڈیوٹی بہتر معاوضے پر ایران اور شیعہ مخالف سرگرمیوں کے محاذ پرلگادی۔ اس دوران افغان انقلاب کو ناکام بنانے اور نام نہاد جہادکےدور میں تو پاکستانی مولوی پر ڈالروں اور ریالوں کی بارش ہوگئی اور مولوی کروڑوں اور اربوں میں کھیلنے لگا۔
اب افغان جہاد بھی ختم ہوچکا ہے اور سعودی عرب میں محمد بن سلمان کی قیادت میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان کے تناظر میں پاکستان کے مولوی کی ضرورت اور اہمیت ختم ہوگئی ہے اورسعودی عرب نے مولوی کی فنڈنگ بند کردی ہے۔ اب جب کہ سعودی فنڈنگ ہی نہیں رہی تو سعودی عرب کے احکامات ماننے کی کوئی مادی وجوہ بھی نہیں رہیں اب مولوی یہ کہہ کر سعودی عرب کے اقدامات سے اظہار لاتعلق کردیتا ہے کہ ہر ملک کے اپنے مخصوص حالات ہیں اور ان حالات کو یش نظر رکھ کر ہی فیصلے کئے جا سکتے ہیں۔
♦
One Comment