لیاقت علی
وبائی امراض کے ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی ایک بڑی اور اہم وجہ لوگوں کا کسی ایک جگہ یا عمارت میں زیادہ تعداد میں اکٹھے ہونا ہے۔چنانچہ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک کی حکومتوں نےمختلف مذاہب کی عبادت گاہوں میں لوگوں کو اکٹھے ہونے سے روک دیا ہے کیونکہ کم و بیش سبھی مذاہب میں عبادات اجتماعی طورپرہی کی جاتی ہیں۔چرچ، مندر، گوردوارے، مساجد وغیرہ مکمل طورپربند کردی گئی ہیں۔ترکی میں تو ایک بڑی مسجد کوشاپنگ مال میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
امام مسجد کاکہنا ہے کہ انھوں نے مسجد میں راشن کے بڑے بڑے ڈرم رکھوادیئے ہیں جس میں مخیرحضرات کھانے پینے کی اشیا رکھ جاتے ہیں اورضرورت مند ترک شہری آکرمطلوبہ اشیا لے جاتے ہیں۔ تمام مسلم ممالک میں مساجد بند ہیں لیکن پاکستان کے سوا کہیں سے مولویوں کی مزاحمت اور احتجاج کی آوازبلند نہیں ہوئی ہے۔ توپھرکیا وجہ ہے کہ دنیا کے سبھی مسلم ممالک کے مولوی اپنی اپنی حکومتوں کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے مساجد بند کرنے پر رضامند ہوچکے ہیں لیکن پاکستان میں مولوی حکومت کی بات ماننے سے انکاری ہیں۔
حکومت پاکستان مولویوں کے سامنے گڑ گڑا اور کانپ رہی ہے۔ کبھی صدران سے تعاون کی بھیک مانگتے ہیں تو کبھی وزیراعظم ان کی خوشامد کررہے ہوتے ہیں۔ حکومتی منت سماجت کے باوجودمولوی حکومت کی بات سے ماننے سے انکاری ہیں لیکن حکومت اورریاست ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے پر تیار نہیں ہے۔ کیوں؟ اس کے لئے پاکستان کی ریاست اورمذہب اور اس کے پرچم بردارمولوی کے باہمی تعلق کا سمجھنا ضروری ہے۔
دنیا کے سبھی ممالک کے وجود کی تاریخی، جغرافیائی،لسانی اور نسلی وجوہات ہیں۔ ایران اسلامی انقلاب سے قبل بھی صدیوں سے ایک مسلمان ملک تھا گو خمینی نےاسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا لیکن اس کے باوجود ایرانی عوام آج بھی اپنی قدیم تاریخ اور ثقافت کے ساتھ پختگی سے وابستہ ہیں۔ سعودی عرب تو ہے ہی ایک خاندان کی ملکیت۔ اس کا نام سعود خاندان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ سعودی عرب کی کوئی نظریاتی ساخت نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ وہ اسلام کے مقدس ترین مقامات جواس کی حدود میں واقع ہیں کا کسٹوڈین ہے۔
سعودی عرب کے عوام کے لئے اسلام مذہب سے زیادہ ان کا عظیم تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے جس کی حفاظت وہ ہر صورت کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔۔افغانستان ملک پہلے سے موجود تھا اور اسلام اس کا ریاستی مذہب چند دہائیاں قبل بنا ہے۔ افغانستان میں مختلف قومیتیں اور لسانی گروہ موجود ہیں، پختون، تاجک اورازبک اپنی ثقافتوں اور زبانوں کو اپنی شناخت بتانے میں بالکل نہیں ہچکچاتے۔
اس طرح کسی بھی مسلم ملک کا نام لیں اس کی اپنی منفرد تاریخ اور ثقافت ہوگی اور اس ملک کو مسلمان ہوتے ہوئے اپنی تاریخ اور ثقافت پرفخر بھی ہوگا۔بعض صورتوں میں تو وہ اپنی صدیوں پرانی تاریخ اور ثقافت کو اپنی دینی وابستگی پر ترجیح دیتے پائے جاتے ہیں۔کوئی ترک عربی زبان کو ترکی زبان پر فوقیت نہیں دیتا۔
پاکستان اس اعتبار سے دیگر مسلم ممالک سے منفرد ہے کہ اس کا نظریہ پہلے مرتب کیا گیا اورملک بعد میں قائم ہوا۔ قیام پاکستان کی بڑی اوربنیادی وجہ اسلامی نظریہ کو قراردیا گیا تھا۔ اگر کسی ملک کے قیام کا جواز ہی مذہب ہوتومولوی کو ریاستی امور سے کیسے بیدخل اورجدا کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی روز اول سے پاکستان کے ریاستی امور میں دخیل ہے۔ پاکستان کا پرچم پہلی مرتبہ کراچی میں ایک مولوی شبیر احمد عثمانی نے لہرایا تھا۔
جناح ،لیاقت علی خان اور دوسری مسلم لیگی قیادت کے نزدیک پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام کی نشاۃ ثانیہ تھی۔پاکستان کی ہرحکومت خواہ وہ جمہوری ،سول یا پھر فوجی تھی، سبھی نے اسلامی نظریہ کو اس کے قیام کا جواز بتایا اور مولوی کو اپنا نظریاتی محافظ قرار دیتے ہوئے اس کو حکومت اور ریاستی امور میں جونئیر پارٹنر کا درجہ دیا۔۔ عوام کی اپنے حقوق کے لئےجدوجہد کا راستہ کھوٹا کرنے کے لئے مولوی اور اس کی عقیدہ پرستانہ سوچ کو حکمرانوں نے بڑی چابکدستی سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کیا ۔
ہر حکومت نے پاکستان میں بسنے والی قومیتوں، ان کی ثقافتوں، زبانوں کو تباہ کرکے ایک زبان اور ایک مذہب کے نام پر زمینی حقایق کا بطلان کیا اورجس کی وجہ سے مولوی اور اس کی عقیدہ پرستی روزبروزمضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور آج صورت حال یہ ہے کہ مولوی اپنے مربیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہا ہے کیونکہ اسے اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ حکمران اس کی نظراتی حمایت کے بغیر اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتے۔
مذہب کے نام پر مقامی ثقافتوں کو مسترد کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج مولوی ریاست کے مقابل تن کرکا کھڑا ہے اور ریاست اس سے اپنی بات منوانے سے قاصر ہے۔ جب تک ریاست پاکستان کی شناخت مقامی قومیتوں، ثقافتوں اور زبانوں کو تسلیم نہیں کرتی اور پاکستان کو کسی ایک مذہب یا عقیدے کے ماننے والوں کا ملک کی بجائے اسے کثیر المذاہب ملک تسلیم نہیں کرتی مولوی کی طاقت و قوت کو کوئی حکومت نہیں توڑ سکتی اور مولوی اسی طرح دندناتا رہے گا۔
♦