آصف جاوید
کینیڈا کو اقوامِ عالم میں ممتاز مقام حاصل ہے،معیار زندگی کے اعتبار سے اقوامِ متّحدہ کے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے مطابق دنیا کے پانچ بہترین ملکوں میں کینیڈا کا نام شامل رہتا ہے۔ کینیڈا ایک کثیر الثقافت اور کثیر المذاہب ملک ہے۔ کینیڈا تارکینِ وطن کی جنّت ہے، کینیڈا میں دنیا کے 193 سے زیادہ ممالک کے تارکینِ وطن امن و آشتی اور بھائی چارے سے رہتے ہیں۔
گو کہ کینیڈا کی کثیر آبادی کا مذہب عیسائیت ہے، مگر یہ کینیڈا کا سرکاری مذہب نہیں ہے۔ کیوں کہ کینیڈا میں مذہب کو فرد کا زاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، اور کاروبار مملکت میں مذہب کو قطعی اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ کینیڈا میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنی مذہبی تعلیمات اور رسومات پر عمل کرنے کی کھلی آزادی ہے۔یہی آزادی کینیڈا میں مسلمانوں کو بھی حاصل ہے۔ کینیڈا میں ہر فرقے کے مسلمان اپنے اپنے عقائد کے مطابق مذہبی آزادی کا لطف اٹھاتے ہوئے اپنی عبادات کرتے ہیں۔
کینیڈا میں ہر کسی کو سیاسی آزادی حاصل ہے، مسلمان کمیونٹی اِس سیاسی آزادی کا بھرپور لیوریج لیتی ہے، اوراپنی موجودگی اور اہمیت ثابت کرنے کے لئے سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں رہتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں کمیونٹی کے افطار ڈنر زیہاں کے سیاستدانوں کے لئے مسلمانوں سے رابطے بڑھانے اور تعلّقات مضبوط کرنے کا بہترین موقع ہوتے ہیں اور یہاں کے سیاستدان اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ان افطار ڈنرز میں بہت جوش اور جذبے سے شرکت کرتے ہیں، روزہ افطار کرتے ہیں، مسلمانوں کی تعریف کرتے ہیں، مذہب اسلام کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ کینیڈا میں مسلمانوں سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی کینیڈا میں مسلمانوں کو کسی نفرت کا سامنا ہے، مگر پھر بھی کچھ ڈیڑھ ہوشیار اور چالاک سیاستدان انسانی نفسیات سے کھیلتے ہوئے مسلمانوں کی تقریبات میں مسلمانوں کا التفات حاصل کرنے کے لئے اپنی تقاریر میں اسلامو فوبیا کا غیر ضروری ذکر جان بوجھ کر کرتے ہیں “کہ کینیڈا میں مسلمانوں کو اسلاموفوبیا کا سامنا ہے“۔
یہ دراصل سیاست میں مذہب کا استعمال ہے۔ مسلمانوں کو ایسا لگتا ہے کہ جب سیاستدان خود کہہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو کینیڈا میں اسلاموفوبیا کا سامنا ہے، تو ہم کینیڈا کے مسلمان واقعی مظلوم ہیں ، ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، ہم دوسرے مذاہب سے زیادہ بہتر سلوک کے مستحق ہیں۔
مسلمان کمیونٹی کی اس نفسیات کو سیاستدانوں نے اب بطور ٹُول استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔۔ خصوصی طور پر ان سیاستدانوں نے جو بلدیاتی سطح کی شہری حکومت کی سیاست کرتے ہیں، ان میں چند مشہور شہروں کے سٹی کونسلرز اور میئرز بھی شامل ہیں جو مسلمان کمیونٹی کو اپنے ووٹ بنک کا اہم حصّہ تصوّرکرتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو ہر قیمت پر مسلمان کمیونٹی سے اپنے تعلّقات بہتر اور مضبوط رکھنا چاہتے ہیں، اس لئے اِن سیاستدانوں نے کرونا وائرس وبا کی آڑ میں موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ بڑے شہروں کی کونسلز میں قراردادیں پاس کرکے سٹی بائی لاز میں عارضی ترمیم کردی ہے اور رمضان میں مساجد سے مغرب کی اذان لاؤڈ اسپیکر پر نشر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاکہ مسلمان کمیونٹی میں مقبولیت بڑھائی جا سکے ، مسلمان کمیونٹی کا اعتماد حاصل کیا جاسکے، اور ووٹ بنک بھی پکّا ہوجائے۔
حالانکہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت دینے کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے، لوگوں کو گھروں میں رہنے اور فاصلہ قائم رکھنے کی تاکید ہے۔ ، کووڈ 19 کی وجہ سے مساجد میں پانچ سے زیادہ نمازیوں کے اجتماع پر پابندی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی آواز سے ارد گرد محلّے میں شور اور آلودگی میں تو اضافہ ہوسکتا ہے، مگر اس اذان کے نتیجے میں مسلمانوں کو مسجد تک آنے کی دعوت ان تک موثّر طور پر نہیں پہنچ سکتی ہے ، کیونکہ لازمی نہیں کہ اس محلّے کے سارے مسلمان مسجد کے پڑوسی ہوں، وہاں دوسرے مذاہب کے ماننے والے شہری بھی رہتے ہیں جو یقیناً، اذان کی آواز سے ڈسٹرب ہوتے ہونگے۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی آواز سے ان لوگوں میں مسلمانوں کے لئے ناپسندیدگی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہونگے۔
ایک کثیر المذاہب اور کثیر الثقافت معاشرے میں کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کو خصوصی رعایت دینا “اصل میں امتیازی سلوک ہے“، اذان کی آواز سے شور و آلودگی پیدا ہوتی ہے، اس سے دوسرے مذاہب کے مانے والوں اور امن و سکون پسند شہریوں کا سکون غارت ہوتا ہے، اور طبعیت میں ے چینی پیدا ہوتی ہے، جو آگے چل کر بدمزگی کا سبب بن سکتی ہے۔
ہماری ان عاقبت نا ندیش سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ کینیڈا کے کثیر الثقافت اور کثیرالعقائد معاشرے میں مذہب کو سیاست میں ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کریں۔ اِس کے نتائج بہت برے نکلیں گے۔ مسلمانوں کا التفات حاصل کرنے کے لئے ایک پرسکون معاشرے کا چین و سکون برباد نہ کریں، ہم 1400 سال قبل معاشرے میں نہیں رِہ رہے، ہم 21ویں صدی میں رِہ رہے ہیں، کینیڈا میں ہر قسم کی مواصلاتی سہولیات، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ریڈیو، ٹی وی اور موبائل ایپ کی سہولیات موجود ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی آواز کے بغیر بھی مسلمانوں کو مغرب کے وقت افطار و نماز کی اطلاع دی جاسکتی ہے۔
♦
2 Comments