آمنہ اختر
یکم مئی 2020 کی تقریر میں سویڈش وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس ابھی ختم نہیں ہوا ۔بلکہ ایک وقت آئے گا جب ہم سب کرونا وائرس کے بارے میں باتیں کریں گے ۔کہ اس نے ہم انسانوں کو کس طرح سے متاثر کیا تھا ۔ مگر یہ مت بھولیں کہ ابھی ہم کرونا وائرس سے آزاد نہیں ہوئے اور ابھی ہم نے ملکر اس سے اپنا تحفظ کرنا ہے اور وقت آئے گا جب ہم اپنے پیاروں کو ملیں گے اور وقت آئے گا جب ہم اپنے بزرگوں کو ملیں گے ۔وزیراعظم نے ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا بھی پیغام دیا جو اس کرونا وائرس سے اپنی نوکریاں کھو جانے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔
سویڈش حکومت نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا ہےکسی بھی مسئلے پر پہلا تاثر بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ سویڈش حکومت نے شروع سے ہی بڑی احتیاط سے اپنا ردعمل کرونا وائرس کے بارے دیا ۔کیونکہ یہ صرف ایک انسان کا مسئلہ نہیں تھا ۔بلکہ دس ملین لوگوں کی زندگیوں اور ان کے روزگار کا مسئلہ بھی شامل تھا ۔
ایک سروے کے مطابق 80فیصد لوگ سویڈش حکومت اور انسانی صحت کے ڈیپارٹمنٹ کے بارے مثبت رائے رکھتے ہیں یعنی وہ اس کو رونا وائرس کے خلاف کئے گئے انتظامات اور احکامات سے متفق ہیں گو کہ بہت زیادہ اموات بھی ہوئی ہیں ۔ سویڈن نے باقی تمام دنیا سے بہت مختلف لائحہ عمل اپنایا جس کے نتیجے میں اسے دوسرے مغربی ممالک کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ ا لیکن اس کی حکمت عملی کو بھی سراہا جا رہا ہے ۔
کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی نوکریاں بھی گئی ہیں مگر حکومت نے ان افراد کو قلیل مدت کے لئے تنخواہ کے ساتھ چھٹی دے کر بہت سے لوگوں اور کاروبار کرنے والوں کو اس بے روزگاری کے عذاب سے بھی بچایا ہے ۔مگر اس کے منفی اثرات ہیں کہ ابھی تک حکومتی اداروں کو سکھ کا سانس لینے ہی نہیں دے رہے ۔
سویڈش فنانس منسٹر مگدالینا نے حال ہی میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بیروزگاری نو فیصد تک بڑھنے کا اندیشہ ہے جو کہ سویڈش اکانومی کو بہت بڑا دھچکا لگا رہی ہے لیکن فنانس منسٹر کے مطابق وہ جلد ہی اس پوزیشن میں ہوں گے جو کہ اس ملک کی معیشت کو بہتر کرے گی ۔فنانس منسٹر بھی کرونا وائرس کو لے کر بہت پریشان ہیں ۔مگر انہوں نے چار بڑے اداروں کو مالی امداد دے کر بہت سے لوگوں کی نوکریاں بچائی ہیں اور کاروبار کرنے والوں کی بھی امداد کی ہے ۔
حکومت کی طرف سے اس مالی امداد کے پروگرام کے باوجود سویڈش روزگار کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تقریباً دو لاکھ لوگ لمبے عرصے کے لئے بیروزگار ہوئے ہیں ۔یعنی کرونا وائرس نہ صرف انسانی جسمانی صحت کو اثر انداز کر رہا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی افراد کو بے بس کر رہا ہے جس سے افراد کی نفسیاتی صحت کو بھی لمبے عرصے تک اس کے اثرات سے نبٹنا پڑے گا ۔
کرونا وائرس نے بہت زیادہ مالی مسائل پیدا کئے ہیں مگر ساتھ ہی بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں یا اولڈ ہومز کی پرائیویٹائیزیشن کے پول بھی کھو لے ہیں ۔یعنی کس طرح ان پرائیویٹ اداروں نے اپنے پیسے بچانے کے لئے اپنے ملازمین کو بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے اولڈہومز کے اندر بے احتیاطی سے کام کروایا ۔جس سے نہ صرف ملازمین بلکہ بزرگ افراد بھی کرونا کا شکار ہوئے ۔ایک رپورٹ کے مطابق سویڈن میں زیادہ اموات بزرگ افراد کی ہوئی ہیں اور ان میں پرائیویٹ اولڈہومز میں موجود بوڑھے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔
سویڈن میں ابھی تک22082 افراد کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 1005افراد صحت یاب ہوئے ہیں اور 2669افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں ۔ یہاں روزمرہ کی زندگی بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے لوگ ایک دوسرے سے کم ملتے ہیں اور اپنے بزرگوں کو ان کے گھر کے باہر سے ہی حال احوال پوچھتے اور ان کو کھانے پینے کا سامان مہیا کر کے الوداع کہتے ہیں ۔
سویڈش سکولوں میں طالبعلموں کی تعداد کرونا وائرس کے شروع کےدنوں میں تھوڑی سی کم ہوئی تھی مگر اب تعلیمی اداروں نے والدین کو احکامات جاری کیے ہیں ۔جس کے مطابق وہ بچوں کو صرف بیماری کی صورت میں گھر پر رکھیں تندرست بچوں کو سکول میں بھیجیں۔ پبلک سیکٹر جس میں ٹرانسپورٹ اور خریدوفروخت کے ادارے وغیرہ شامل ہیں ان میں بھی احتیاطی تدابیرکی پابندی پر فوکس کرتے ہوئےرواں دواں رکھا ہوا ہے۔ جیسے ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنا ،مصافحہ نہ کرنااور سب سے اہم اپنے ہاتھ اچھے طریقے سے دھونا شامل ہیں ۔
امید ہے کہ کرونا وائرس پر جلد ہی قابو پا لیا جائے گا اور ہم سب لوگ نہ صرف ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملا سکیں گے بلکہ اپنے پیاروں کے ساتھ بیٹھے اپنے بچوں کو کھیلتا کودتا دیکھ سکیں گے ۔
♦