شرافت رانا
اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمان کے درمیان جھگڑا 18 ویں ترمیم کا کم ہے اور این ایف سی ایوارڈ کا زیادہ ہے۔
این ایف سی ایوارڈ وفاق اور صوبوں کے مابین وصول کردہ ٹیکس یا کل آمدنی کی تقسیم کا فارمولا ہوتا ہے۔ وفاق اور صوبے ہر پانچ سال کے بعد یہ معاہدہ دوبارہ سے کرنے کے پابند ہیں۔
اس وقت جاری این ایف سی ایوارڈ صدر زرداری کے زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے کیا تھا۔
اٹھارویں ترمیم میں یہ اصول بھی بنایا گیا تھا کہ ہر پانچ سال کے بعد نیا این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصہ کی مد میں سابق ایوارڈ سے کم یا اس کے برابر رقم نہیں دے سکتا۔ ہر صورت میں صوبوں کا حصہ بڑھانا ضروری ہے۔
مسلم لیگ نواز نے پانچ سال حکومت کے دوران 18 ویں ترمیم کے متصادم کم از کم 100 اقدامات اٹھائے۔ جن میں سے سب سے بڑا قدم یہ بھی تھا کہ پانچ سال پورے ہونے پر انہوں نے نیا این ایف سی ایوارڈ جاری نہیں کیا۔ لہذا آج بھی وفاق صوبوں کو وہی رقم دے رہا ہے جو 2010 میں طے کی گئی تھی۔
پی پی پی 2017 سے مسلسل نئے این ایف سی ایوارڈ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ گزشتہ سال پی ٹی آئی کی حکومت نے ایک سال کی مہلت مانگ لی تھی اور وعدہ کیا تھا کہ اس سال یعنی 2020 کا بجٹ نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت جاری کریں گے۔
بلاشبہ ملکی معیشت کو عمران خان کی ٹیم نے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ مگر کرونہ کی بین الاقوامی وبا کی وجہ سے اس وقت صورتحال عمران خان حکومت کے لیے آئیڈیل بن گئی ہے۔ پٹرول کی قیمت کم ہونے سے خزانے کو کم ازکم 4 ارب ڈالر یعنی 650 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے ۔ 500 ارب روپے کے کے قریب رقم غیر ممالک کے قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی مؤخر ہونے کی وجہ سے بچ گئی ہے ۔
سندھ حکومت کھلے عام اور دیگر صوبائی حکومتیں کم آواز میں اس بچی ہوئی رقم میں سے بہت سا حصہ وفاق سے اپنے شہریوں کے لیے مانگ رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور اسکی ٹیم نے کبھی کسی کو مردہ مکھی دینے کا بھی حوصلہ نہیں دکھایا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرکے انہیں ایک معقول رقم بطور رشوت دے کر صوبوں کو زیادہ ادائیگی سے بچنا چاہ رہی ہے۔
پی پی پی نے کھلے عام پی ٹی آئی حکومت کی بدنیتی کو بھانپتے ہوئے للکارا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ نیا بجٹ نئے این ایف سی ایوارڈ کے بعد دیا جائے۔ پی ٹی آئی حکومت این ایف سی ایوارڈ کے بغیر بجٹ لانا چاہتی ہے اور اسی بدنیتی کی وجہ سے اٹھارویں ترمیم کے خلاف مہم شروع کروائی گئی ہے۔
بدقسمتی سے شریف خاندان نے اپنے وقتی مفاد کی خاطر پی ٹی آئی کے پلڑے میں بیٹھنا زیادہ مناسب خیال کیا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہمیشہ سے ان کا کردار اچھی نوکری کی تلاش میں سرگرداں نوجوان کی طرح کر رہا ہے۔
♦