حبیب شیخ
جب کرونا وائرس کی وبا کے دوران میں ایک کھیلوں کے پارک میں گیا
مجھے کو ئی انسان نظر نہیں آیا
سنسان پارک کو دیکھ کر میں گھبرا گیا
چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی تھی
پھر ایک چڑیا میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی
مجھے احساس ہوا کہ میں وہاں اکیلا نہیں تھا
میں نے ماضی کی تلخیوں اور مستقبل کی فکر کو ذہن سے نکال کر پورا دھیان اُس موجودہ لمحے پرلگا دیا
میں نے جو کچھ سنا اور دیکھا وہ شاید پہلے کبھی میری سماعت اور مشاہدے میں نہیں آیاتھا
ہر طرف بے خوف و خطر پرندے چہچہا رہے تھے موسم بہار کی آمد کے گیت گا رہے تھے گھونسلے بنانے کے لئے چھوٹی ٹہنیاں اور تنکے جمع کر رہے تھے
ان کی سریلی آوازوں سے پورا پارک چہک رہا تھا
کیڑے مکوڑے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور سرعت کے ساتھ رینگ رہے تھے
درختوں کی سوکھی شاخوں پہ پتے نکل رہے تھے جیسے وہ خود کو زیور سے آراستہ کر رہی ہوں
قدرت کا رقص پورے زوروں پر تھا
قدرت کا رقص پورے زوروں پر تھا
وہ رقص جس کے سرُ اور تال کو ماضی کا انسان گاہے بگاہے بگاڑ دیا کر تا تھا
وہ رقص جس کو صنعتی انسان نے اپنے لا محدود پیداوار اور لا محدود کھپت کے نظریئے کے تحت روک دیا تھا
اس نے قدرت کی تسخیر کا دعویٰ کر دیا، در حقیقت اس نے بے دریغی سے قدرت کو پامال کیا
چند انسانوں نے تکبر اور مال کے سُروں پے دوسرے انسانوں اور مخلوقات کی لاشوں پر اپنا وحشی رقص شروع کردیا
قدرت نے ایک حقیر جرثومے کے ذریعےاس کا مادّی رقص روک کر اس کو بے بس کردیا
اس جرثومے نے ظالم و مظلوم، ریئس و فقیر ، طاقتور اورکمزور میں کوئی فرق کئے بغیر لاکھوں انسانوں کو اپنا نشانہ بنایا
کاش! یہ وبا جلد از جلد ختم ہو جائے انسانی جانوں کا ضیاع ختم ہو جائے اور بےروزگار پھر سے با روزگار ہو جائیں
افسوس! اس وبا کے ختم ہوتے ہی مادّی انسان قدرت کے رقص کو روک کر اپنا وحشیانہ رقص اور زیادہ شدّْت سے کر ے گا۔