لیاقت علی
ایک دوست نے اپنی ایک پوسٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا حمود الرحمن کمیشن رپورٹ شا ئع نہ کرنا غلطی تھی؟ کمنٹس میں کم وبیش یہ اتفاق پایا گیا کہ یقینا اس کی اشاعت نہ ہونا غلطی تھی اوراس کو شائع کردیا جاتا تو شائد خاکی اتنے مضبوط اورطاقتورنہ ہوتےجتنے وہ اس وقت ہیں۔ اورشائد جنرل ضیا اورجنرل پرویز مشرف کی مارشل لاز سے بھی ملک محفوظ رہتا۔ تاریخ میں اگراورشائد کا رول کچھ زیادہ نہیں ہے ماسوائے اس کہ ہم تھوڑی دیرکے لئےخوش ہولیں کہ اگرایسا ہوتا تو شائد یہ نہ ہوتا اورزمانہ حال میں ہمیں جن مشکلات ومسائل کا سامنا ہےان سے بچ گئے ہوتے۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے فوری بعد فوج میں جوہلچل ہوئی اس کو سمجھے بغیر حمودالرحمن کمیشن کے قیام اوراس کی رپورٹ کی تیاری اوراس کی اشاعت کے نہ ہونے کوسمجھا نہیں جاسکتا۔
سولہ16 دسمبر کے فوری بعد جنرل یحییٰ خان اوران کے حواری جنرلز کا مخالف جنرلز کا گروپ فوری طورپرمتحرک ہوگیا تھا اورانھوں نے فوجی میسوں میں ان کے خلاف فضا ہموار کرنا شروع کردی تھی۔ وقت بہت تیزی سے گذررہا تھا اور یحییٰ ٹولے کے مخالف جنرلز جلد ازجلد اسے فارغ کرکے خود اقتدار پر قابض ہونا چاہتے تھے۔
چنانچہ جنرل گل حسن جو اس وقت ڈائیریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے نے برسر اقتدارجنرلزکے گروہ کو گھر بھیجنے کاپراسس شروع کیا یہ کام وہ تنہا نہیں کرسکتے تھےاس کے لئے انھیں منتخب قیادت کی ضرورت تھی چنانچہ انھوں نے بھٹو کو آوازدی اوراپنے ساتھ ملایا۔ بھٹو تمام تر یقین دہانیوں کے ساتھ پاکستان آئے اورجنرل گل حسن نے انھیں 22 جنرلزکی ایک فہرست تھمادی جنھیں وہ اپنے راہ کی رکاوٹ سمجھتے تھےاوربھٹو نے ان جنرلز کے نام ریڈیو ٹی وی پرپڑھ کے انھیں ریٹائرکردیا۔
جنرل گل حسن کا تواپنا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھے کیونکہ وہ ڈی جی ایم اوہوتے ہوئے فوجی حکمت عملی بنانے کے ذمہ دار تھے لیکن انھوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئےاقتدارخود تو نہ سنبھالا کیونکہ یہ قرین مصلحت نہ تھا بلکہ وقتی طورپرامانتاً بھٹو کے سپرد کردیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ جوں ہی حالات ساز گار ہوں گے وہ بھٹو سے اقتدارواپس لے لیں گے۔
بھٹوکوبخوبی علم تھا کہ ان کا اقتدارجنرلزکا مرہون منت ہے لہذا انھوں نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ یہ فوجی نہیں سیاسی شکست تھی۔ وہ ملک کی فوجی چھاونیوں میں گئے اورفوجیوں کا حوصلہ بڑھایا اورانھیں یقین دلایا کہ یہ سیاست دان ہی تھے جن کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا فوجیوں کا اس میں کوئی قصورنہیں تھا۔
جلد ہی بھٹو نے جنرل گل حسن سے گلو خلاصی کرالی کیونکہ جنرل موصوف خود کو حکمران اوربھٹو کو اپنا کارندہ سمجھتے تھے۔ بھٹو نے اگلا چیف آف دی آرمی سٹاف ایک ایسے جنرل (ٹکا خان) کوبنایا جنھیں بنگالی عوام بنگال کا قصائی کہتے تھے اس سے بھٹو کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
حمودالرحمن کمیشن میں شامل جسٹس حمودالرحمن بہاری تھے جب کہ دوسرے رکن جسٹس انوارالحق وہی تھے جنھوں نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ بھٹو کی پھانسی کی سزا بحال رکھی تھی۔ اس رپورٹ کا شایع نہ ہونا غلطی نہیں تھی یہ بھٹو اور جنرلز کی سوچی سمجھی پالیسی تھی۔ بھٹو سمجھتے تھے کہ اس رپورٹ کی اشاعت سے فوجی اشرافیہ ناراض ہوگی اور اس کی ناراضی وہ افورڈ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ ان کے اقتدار کا سنگھاسن فوجی اشرفیہ کی سپورٹ کے ستونوں پر کھڑا ہے۔جنرلز سمجھتے تھے کہ اگر یہ رپورٹ شایع ہوگی توان کی عوام کی نظروں میں مٹی پلید ہوگی لہذا اس کو کسی قیمت پر شایع نہیں ہونا چاہیے۔
حمودالرحمن کمشین رپورٹ کا شائع نہ ہونا سول اور فوجی قیادت کا مشترکہ فیصلہ تھا اور اس کو شائع نہ کرنے کے پش پشت دونوں کے اپنے اپنے مفادات اور مقاصد تھے۔ اس رپورٹ کواوپن نہ کرنا غلطی نہیں بدنیتی اور بددیانتی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں بھٹو ہی واحد وہ شخص تھے جنہیں تاریخ نے وہ موقع دیا جس سے وہ پاکستان کو آزاد، جمہوری اور خوشحال پاکستان بنا سکتے تھے ۔اگر وہ صوفی سندھ یار کے بقول پوری ریاستی سٹرکچر کو ہی توڈ دیتے۔ لیکن یہ موقع اُنہوں نے گنوا دیا ۔ یہ کہنا درست نہیں بلکہ اُسے اپنے شخصی مفاد کے لئے استعمال کیا۔
بھٹو اپنے آپ کو ماؤ یا پھر کاسترو کی طرح جنوبی ایشیا کا ھیرو بننا چاہتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک تیسرا عالمی بلاک بن کر امریکہ اور سویت یونین کےمقابل کھڑا ہونا چاہتے تھے اور جس کے لئے اُنہوں نے اسلام کا کارڈ استعمال کیا۔ اور تاریخ کو اُلٹے بہاؤ میں لے جانے کی کوشش کی ۔ پاکستان کو اسلام اور ہر قسم کی سیاسی موقع پرستی کو آلہ کار بنایا۔
دراصل بھٹو بھی جناح اور اب عمران خان کی طرح اپنے ہی سحر میں گرفتار تھے ۔ لیکن وہ اُن دونوں سے اس اعتبار سے مختلف تھے کہ صاحب دماغ تھے اور با صلاحیت تھے۔ کاش بھٹو اِن کی طرح نرگسیت زدہ نہ ہوتے اور ماؤ اور کاسترو بننے کی بجائے کم از کم ہوچی منہہ یا شیخ مجیب ہی بن جاتے تو آج پاکستان مختلف ہوتا۔
♦