محمد شعیب عادل
فیس بک پر حاشر ابن ارشاد لکھتے ہیں کہ ایک مشہور عالم (ان کا نام نہیں ظاہر کیا) کا بیان نظر سے گزرا، فرمایا کہ قرآن کا ترجمہ ممکن ہی نہیں یہ صرف عربی کا اعجاز ہے کہ اس میں قرآن کے شاندار پیغام کا ابلاغ ممکن ہے۔ حاشر صاحب تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ دعوی کیے جانے والا خدا کا اصل پیغام اپنے حسن، جلال اور شکوہ کے ساتھ کسی غیر عرب تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ لغوی مطلب پتہ لگ جائے گا۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر غیر زبان والوں کا اس سے متاثر ہونا بھی ممکن نہیں۔۔نتیجتاً مسلمان بھی صرف عربوں کو ہی ہونا چاہیے۔ باقی خطوں کے لوگ اپنی اپنی مقامی زبان کے حساب سے اپنا مذہب طے کر لیں۔
درحقیقت ہوتا ایسے ہی ہے اسلام جب دوسرے ممالک تک پہنچا تو ہر ملک کی ثقافت کے کچھ رنگ اس میں داخل ہوئے۔ ویسے بھی ہر زبان کے الفاظ کا اپنا تاثر ہوتا ہے۔ بحیثیت ایک پنجابی کے، بچپن میں مولوی صاحب سے سپارہ پڑھتے ہوئے کئی عربی الفاظ کی ادائیگی کرتے ہوئے جھجک جاتا تھا تو مولوی صاحب کہتے’’پتر گھبرا نہ اے اللہ دا کلام اے‘‘۔
ہر دور میں کچھ لوگ اصل اسلام کی طرف رجوع کرنے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ان کا خیال ہوتا ہے کہ مقامی رسوم رواج کی آمیزش سے اس کی شکل مسخ ہوجاتی ہے۔ لہذا وہ اصل اسلام کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر دونوں گروہوں میں ایک نہ ختم ہونے والی چپقلش شروع ہوجاتی ہے۔
ہوش سنبھالا تو خاندان کے کچھ لوگوں کو بریلوی اور کچھ کو اہل حدیث مسلک سے منسلک پایا۔ سکول اور پھر کالج میں اگر اسلام کے متعلق کچھ سوالات ذہن میں اٹھتے تو اساتذہ کہتے تھے کہ بھئی قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھو تو تمہیں تمام سوالات کے جواب مل جائیں گے۔ حالانکہ ان اساتذہ میں سے شاید ہی کسی نے ترجمہ پڑھا ہوا تھا۔ بہرحال گھر میں لفظی ترجمے والے دو تین قرآن پاک موجود تھے ۔ جب انہیں پڑھنا شروع کیا تو ترجمہ ایسا تھا کہ کچھ پلے نہیں پڑھتا تھا۔ مختلف علما یا مولویوں کی جانب سے قرآن کی جو تشریح کی جاتی وہ ذہن میں رہتی لیکن ان کی بیان کردہ تشریح پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک آدھ دفعہ سوال اٹھایاتو اساتذہ خشمگیں نگاہوں سے گھورتے اور کہتے کہ بھئ لگتا ہے کہ تم غلط لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا شروع ہو گئے ہو۔
میرے والد عربی کے پروفیسر تھے، ان کو لکھنے پڑھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی، ان سے اسلام سے متعلق کوئی سوال پوچھتا تو کہتے پتر پہلے اپنی پڑھائی کر لے اس کو سمجھنے کے لیے کافی وقت پڑا ہے۔ میرے والد کے مضامین پاکستان ٹائمز ، ، دی مسلم، نیشن، فرنٹئر پوسٹ کے علاوہ غلام احمد پرویز کے ماہنامہ طلوع اسلام میں بھی شائع ہوتے تھے۔ میرے والد کی ذاتی لائبریری میں کوئی دو ہزار سے زائد رسائل اور کتب تھیں ۔ زیادہ تر کتب احادیث اور فقہ کی تھیں اور سب عربی میں۔ رسائل بھی عربی میں تھے۔ عربی میں تو نابلد تھا لہذا اردو کتب پڑھ لیتا تھا۔لائبریری میں پرویز صاحب کی تمام کتب بھی موجود تھیں۔اس سلسلے میں غلام احمد پرویز لکھتے ہیں کہ کسی بھی زبان کا ترجمہ نہیں ہو سکتا، ہاں اپنی زبان میں اس کا مفہوم بیان کیا جا سکتا ہے اسی لیے انہوں نے اپنے ترجمہ قرآن کا نام مفہوم القرآن رکھا۔
پڑھے لکھے لوگوں کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے سے معلوم ہوا کہ علامہ اقبال کے چھ لیکچرز بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں اور خاص کر چھٹے لیکچر کا ذکر بہت زیادہ ہوتا جس میں علامہ اقبال نے اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا تھا۔حقیقت یہ تھی کہ شاید ہی ان لوگوں نے چھ لیکچرز کا کبھی سنجیدگی سے مطالعہ بھی کیا ہوگا۔ انگریزی میں جو لیکچرز شائع ہوئے وہ تو مجھ جیسے نالائق کی سمجھ سے بالا تر تھے۔ بتایا گیا کہ سید نذیر نیازی نے ان کا اردو ترجمہ کیا ہے۔جب اس ترجمے میں سے چھٹے لیکچر کو پڑھنا شروع کیا تو پھر میری نالائقی آڑے آگئی۔
جب بائیں بازو کے دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ یہاں داس کیپٹل کا ذکر بھی قرآن حکیم جیسی عقیدت و احترام سے ہوتا ہے ۔۔ لیکن یہاں بھی معاملہ وہی تھا کہ شاید ہی کسی دوست نے یہ کتاب مکمل پڑھی ہو۔بلکہ ان کا گذارہ مختلف لکھاریوں کے مضامین یا سٹڈی سرکل میں ہونے والی گفتگو پر ہوتا۔ جو بہت زیادہ پڑھے لکھے تھے انھوں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ کسی کو فسٹ انٹرنیشنل تو کسی کو تھرڈ انٹر نیشنل میں ہوئی کچھ تقریروں کے اقتباسات یاد تھے۔ دوستوں کی ساری توانائی فقہی اختلافات پر رہتی۔ ایک دوست کے پاس داس کیپیٹل کا اردو ترجمہ جو کہ سید محمد تقی نے کیا تھا موجود تھا۔ میں نے ان سےکتاب لے کر پڑھنی شروع کی تو اگلے روز واپس کردی ۔میں نے سوچا کہ اردو اتنی مشکل ہے تو انگریزی کا کیا حال ہو گا۔
انہی دنوں سید ابن حسن جو کہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور اپنے دوستوں کے حلقے میں سکہ بند مارکسسٹ کہلواتے تھے نے داس کیپٹیل کا اردو ترجمہ کرنے کی ٹھانی۔لاہور میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے کئی گروپ تھے ۔ ایک روز لاہور میں دوستوں کی محفل میں انہوں نے پہلے باب کے چند حصے پڑھ کر سنائے تو قاضی جاوید بولے ’’شاہ جی میرا خیال ہے کہ اے کتاب انگریزی وچ ہی رہن دیو‘‘۔
♦