مہر جان
مجھے نواب خیر بخش مری کی دور اندیشی پہ رشک آرہا ہے کہ کتنے وثوق سے کہتے تھے کہ پنجاب کا کامریڈ کبھی بھی آپ کے ساتھی نہیں ہوسکتے۔ اس بات کا اندازہ تو مجھے تب ہوا جب ماما قدیر بغیر کسی اسلحہ کے لاہور پہنچا تو تو ہمیں کوئی کامریڈ نظر نہیں آیا۔
لیکن آج جب بولان ملٹری آپریشن میں ہماری ماں بہنوں کو ٹارچر سیلوں میں لے جائے گئے تو مجھے یقین ہو چلا نہ صرف پنچاب کے کامریڈ بلکہ ہر طبقہ فکر چاہے وہ لبرل ہو یا سیکولر ہو یا مذہب کا منجن بیچنے والا ہو ہمارے ساتھ نہیں کھڑا۔اسی لیے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بے شک چاند پینٹ کرتے رہیے بس رنگ کا خیال رکھیے کہیں ریاستی نہ ہو۔
آج واقعی بلوچستان بدل رہا ہے اور بقول صوفی مامون الرشید جو پیچارہ پوری زندگی ظلمت کو ضیاء لکھتا رہا اور صوفی ازم کا لبادہ اوڑھ کر نفرت بکھیرتا رہا جس پیچارے کو مسلح تنظیموں کے صحیح نام تک نہیں پتہ وہ آج ایوب اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کہہ رہا ہے کہ اب یہ بلوچستا ن سردار عطاءاللہ مینگل کا نواب خیر بخش مری کا اور نواب بگٹی کا بلوچستان نہیں رہا بلکہ انکی دانست میں یہ اب جنرل جنجوعہ ،جنرل شیرافگن اور جنرل عامر کا بلوچستان ہے۔
اس پیچارے کو کیا معلوم کہ واقعی بلوچ عوام اب اک نظریہ کے پاپند ہوچکے ہیں اب ان کا بلوچستان واقعی نہیں رہا۔ آج کوئی بھی دانشور اگر بولان آپریشن میں اٹھائی گئی خواتین کے لیے آواز نہیں اٹھاے گا تو بھی بلواسطہ یا بلاواسطہ انہی اوریاوں حسن نثاروں اور شیدوں کے درمیان ہی اپنے آپ کو پائے گا۔ ان کے لبرل ازم جمہوریت پسندی سب دھری کی دھری رہ جا ئیں گی۔
ریاستی اداروں کے پاس آج طاقت ہے اور وہ اس طاقت سےاجتماعی قبرستان سے لے کے قبرستان جیسی خاموشی تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن سچ اور تاریخ کا رخ نہیں موڑ سکتے ان کے اپنے تضاد ان کی راہ میں رکاوٹ ہوں گے اور رد انقلاب ہی انقلاب پیش خیمہ ہوتا ہے۔ مسخ شدہ لاشیں اجتماعی قبریں عورتوں کو گھروں سے اٹھانا اور در ودیوار کو نذر آتش کرنا بنگلہ دیش کی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور چیخ چہخ کر کہہ رہی ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمہارا تو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں
یہ میں نہیں خیبرپختونخواہ کا احمد فراز کہہ رہا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے پنچاب کی فوج اتنی بے رحمی اور ظلم کی داستانیں رقم کررہی ہے اور پورا پنجاب سو رہا ہے جسے حبیب جالب نے جگانے کی کوشش تو کی مگر بے سود رہا اور آج اگر بولان سمیت آواران مشکے میں گھروں سے عورتوں کو ا ٹھاکر در ودیوار نذر آتش کیا جا رہا ہے تو ہم سمجھیں گے تاریخ اپنے آپ کو دھرارہی ہے۔ پھر کوئی شرمیلا بوس آپ لوگوں کے بربریت کو چھپانے کے لیے میدان میں نہیں اترے گی اور نہ ہی مذہب کو جواز بناکر آپ لوگ کسی کی سرزمین پہ جبری الحاق کر کے اپنی ظلم کی داستانیں رقم کرینگے۔
کیونکہ ظلم کو دوام نہیں ہے گر دہشت گردی چاہے وہ مذہب کے نام پہ ہو یا ریاست کے نام پہ، اس کی مذمت تو کم ازکم اہل علم کو کرنا چاہیے بغیر کسی گومگو کی کیفیت کے بعد ہاتھ میں اٹھاے ہوے بینرز پہ لکھے ہوئے الفاظ” ہمیں بلوچوں کی نسل کشی پر افسوس ہے” اپنی معنی کھودیتے ہیں کہ آج پوری ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ بلوچ کی آواز کو دبا نے کی کوشش کر رہی ہے ۔
لیکن نئی نسل میں پیدا ہونے والی نئی سوچ کو کیا وہ دبا سکے گی ۔کیا اس لہو سے پیدا ہونے والی فکر کی نمود کو اپنی ہتھیار سے دبا سکے گی کیا آج ہر بلوچ بچے کو پتہ نہیں کہ وہ حالت جنگ میں ہے یہ اک احساس ہی فتح کی علامت ہوتی ہے۔
One Comment