لیاقت علی
پاکستان کے اکثر باشعور احباب یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ قیام پاکستان کے فوری بعد اگر جاگیرداری کو ختم کردیا جاتا تو پاکستان کو ان معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو بعد کی دہائیوں میں اس کا مقدر بنے اور اس کے سماج اور ریاست کی ٹوٹ پھوٹ بھی نہ ہوتی تو سوائے حیرانی کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
پاکستان کا قیام جاگیرداروں اور برطانیہ کے سٹریٹجک مفادات کی ہم آہنگی کا نتیجہ تھا۔ پنجاب کے جاگیردار، سندھ کے وڈیرے اور سرحد کے خوانین مسلم لیگ میں شامل ہی اس لئے ہوئے تھے کہ مسلم لیگ انھیں کانگریس کے جاگیردار مخالف پروگرام سے تحفظ کا یقین دلاتی تھی۔
میاں افتخارالدین جو پنجاب کی پہلی کابینہ میں وزیر بحالیات تھے کو وزارت سے مستعفی ہی اس لئے ہونا پڑا تھا کیونکہ وہ جاگیرداری کے خاتمے کی وکالت کرتے تھے۔ نواب افتخار حسین ممدوٹ وزیر اعلی کو یہ کسی صورت گوارا نہیں تھا کہ اس کی کابینہ کا کوئی وزیر جاگیردار کے خاتمے کی بات کرے چنانچہ انھوں نے میاں صاحب کو استعفی دینے پر مجبور کردیاتھا۔
قیام پاکستان کے بعد فوج اور جاگیرداروں کا اتحاد ہوگیا اور فوج جاگیرداری کی محافظ اور نگہبان بن گئی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بطور ادارہ فوج سب سے بڑی جاگیردار ہے۔ اس کے قبضے میں موجود زمین کسی بھی ادارے سے زیادہ ہے۔
جنرل ضیا کے مارشلائی عہد میں وفاقی شرعی عدالت زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو عابد حسن منٹو نے سپریم کورٹ میں چند سال قبل چیلنج کیا تھا لیکن آج تک تمام تر مساعی کے باوجود یہ اپیل فکس نہیں ہوسکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے زمین داروں( جاگیرداروں) کے نمائندہ کے طورپر وکالت نامہ فائل کیا تھا۔
پاکستان کی کسی سیاسی جماعت بالخصوص اقتداری سیاسی جماعت کے پروگرام میں جاگیرداری کے خاتمہ شامل نہیں ہے۔ اب جاگیرداری ارتقائی طور پر ختم ہوتو ہو اس کو کسی سیاسی جماعت کے پروگرام کے تحت ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
یہ کہنا سادہ فکری پر مبنی ہے کہ جاگیرداری ختم کر دی جاتی تو معاشی مسائل حل ہو جاتے ۔۔ صنعتی انقلاب کے بعد اور نو آبادیاتی دور سے ایک ملک کی معیشت جن چیزوں سے جڑی ہے ان میں ایک تو دوسرے ممالک ہیں (یعنی آپ اپنی ضرورت کا یا زائد غلہ اگا کر خوشحال نہیں ہو سکتے) اور دوسری چیز پیداوار کے ذرائع یعنی صنعتی ترقی ،، جاگیرداری بالفرض ختم کر بھی دی جاتی (اور وہ ختم کر دینی چاہیے) تو بھی ہمارے معاشی مسائل کا حل صنعتی ترقی کی بنیاد رکھنے اور تجارت کو بڑھائے بغیر نہیں ہو سکتا۔
صنعتی ترقی کے لیے ضروری چیز تحقیق سوال اور جستجو ہے اور جس کے لیے آزادی افکار کی روایات اور سیکولر ریاستی ڈھانچہ بنیادی ضروریات ہیں۔آزادی افکار کے بغیر سیکولر ریاستوں کی صنعتی ترقی جیسی لولی لنگڑی غیر قدرتی و غیر متوازن ہوتی ہے اس کی ایک مثال سوویت یونین اور اس کا انجام ہے۔
اضافہ: سلمان یونس