پاکستان کی معروف خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا اور کہا ہے کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے اور ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ خواتین صحافیوں کے مشترکہ علامیے کے مطابق انہیں سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کی مہم کا سامنا ہے، جس کے پیچھے بظاہر پی ٹی آئی حکومت کے لوگوں کا ہاتھ ہے۔
تقریباً پچاس خواتین صحافیوں کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں جنسی تشدد کی سنگین دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں جو خواتین صحافیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
صحافی بے نظیر شاہ نے اپنے ٹویٹ میں یہ مشترکہ بیان جاری کیا جس پر ایک بڑی تعداد میں خواتین صحافیوں نے دستخط کیے ہیں۔ اس بیان میں خواتین صحافیوں کو ہراس کیے جانے کے بارے میں کہا گیا کہ ‘یہ ایک منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور اس میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت اس جماعت سے وابستہ متحرک اکاؤنٹس شامل ہیں‘۔
بے نظیر شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” ہم نے گزشتہ کچھ ماہ میں اس بات کا جائزہ لیا کہ خواتین صحافیوں کو بعض مخصوص سرکاری عہدیداروں اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں مل کر اس کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی‘‘۔
بے نظیر کا کہنا ہے کہ خواتین صحافیوں کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ان پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں سے پیسے لینے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا الزام لگایا جاتا ہے: ” ہمارے لیے تنقید مسئلہ نہیں۔ لیکن کیا حکومتی ترجمانوں کی طرف سے خواتین صحافیوں پر رشوت لینے کے الزمات لگانا درست ہے؟‘‘۔
خواتین صحافیوں کے بیان کے مطابق ‘آن لائن حملے حکومتی عہدیداروں کی جانب سے شروع کرائے جاتے ہیں اور پھر ایک بڑی تعداد میں ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹس جو حکمران جماعت سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں، ان حملوں کو ہوا دیتے ہیں۔اس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور خواتین صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے انہیں بدنام کیا جا رہا ہے اور اُن کی ذاتی نوعیت کی معلومات عام کی جاتی ہیں۔ اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ صحافیوں پر ‘جعلی خبریں‘ پھیلانے اور ‘عوام دشمن‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور ‘لفافہ‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔
صحافی اور انسانی حقوق کی علمبردار اور علامت سمجھی جانے والی عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزے جہانگیر نے اس بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے اس سے برا وقت بھی دیکھا ہے۔ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مارشل لا دیکھا ہے، اُن کو جیل جاتے دیکھا ہے اور جس طرح کی خوفناک قسم کی تنقید اُن کے خلاف ہوتی تھی شاید وہ اب نہیں ہوتی۔ مگر یہ جو نیا ٹرینڈ ہے اس میں خواتین صحافیوں کو گندی گالیاں اور اُن کے جسم کے بارے میں طرح طرح کے کمنٹس دیے جاتے ہیں جو امتیازی ہوتے ہیں۔‘۔
صباحت خان گزشتہ دس سالوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں،” سوشل میڈیا پر مجھے بہت سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اسلام سے متعلق ایک بلاگ لکھا جس کے بعد مجھے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مجھے ذاتی طور پر بہت نازیبا قسم کے پیغامات بھیجے گئے‘‘۔
بے نظیر شاہ نے کہا کہ خواتین صحافیوں کو باقاعدہ پلاننگ کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔”ٹوئٹر پر ہماری شکایتوں کا وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے نوٹس تو لیا ہے لیکن ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ خواتین صحافیوں سے ملیں گی اور ان کی شکایات کا ازالہ کریں گی‘‘۔
dw.com & bbc urdu