میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ’کشیدگی‘ کم کرنے کے لیے ریاض پہنچگئے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان صورتحال اس وقت کشیدہ ہوگئی جب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب پر شدید تنقید کی۔اگرچہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن میڈیا کے مختلف اداروں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے بارے میں رپورٹیں شائع ہوئی ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے سخت لہجے میں کہا تھا کہ اب پاکستان خود اس حوالے سے او آئی سی (تنظیم اسلامی کانفرنس) کا اجلاس طلب کرے گا۔ وزیر خارجہ کے بیان کو او آئی سی میں سعودی عرب کی قیادت کو چیلنج کرنے کے طور پر دیکھا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘پاکستان آپ سے وہ کردار ادا کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جس کی مسلمان آپ سے توقع کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ کشیدگی کا سبب بنے گا لیکن کشمیریوں کو مارا جارہا ہے۔‘۔
ایسی صورت حال میں ملک کے فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کا یہ دورہ تاریخی طور پر پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔اگرچہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو مالی امداد روکنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک آرمی چیف کا بطور ہیڈ آف سٹیٹ سعودی عرب کا دورہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ آرمی چیف ہی پاکستان کے سربراہ ہیں اور پاکستان آرمی ہی پارلیمنٹ کی بجائے داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بنا رہی ہے۔
سعودی حکومت کے قریبی سمجھے جانے والے سیاسی تجزیہ کار علی شہابی نے ٹویٹ کیا کہ ‘پاکستانی ایلیٹ کو سعودی عرب کی مدد کو اپنا حق سمجھنے کی بری عادت ہے جو کہ ان کی کئی دہائیوں سے مدد کر رہا ہے۔ اب یہ صورتحال ختم ہوگئی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اس رشتے کو اہمیت دے۔ اب یہ رشتہ یکطرفہ نہیں رہا۔‘
آخری بار پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سنہ 2015 میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی تھی جب پاکستان نے یمن میں سعودی عرب کی حمایت یافتہ افواج کی مدد کے لیے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات بہتر ہوئے۔ لیکن پھر ترکی اور ملائیشا کی طرف جھکنے پر تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
ایک طرف جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مذہبی رشتہ ہے وہیں انڈیا کے سعودی کے ساتھ تجارتی تعلقات پاکستان کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ ہے۔ انڈیا دنیا میں تیل کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ صرف یہی نہیں سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو انڈیا کی ریلائنس انڈسٹریز میں 15 فیصد حصص خریدنے کے معاہدے پر بھی کام کر رہی ہے۔
BBC urdu/web desk