ایران، ترکی اور سعودی عرب کی مشرق وسطیٰ میں غلبے کی جنگ شروع ہوچکی ہے ۔ یہ دراصل فارسیوں، عثمانیوں اور عربوں کی تاریخی چپقلش کی جدید شکل ہے۔ غلبے حاصل کرنے کی جنگ میں عربوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا ہے اور عرب اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران اور ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کریں گے۔
عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ اہم رول اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ یوسی کوہین کا بھی ہے۔ جو پچھلے کئی سالوں سے عرب ممالک کے انٹیلی جنس سربراہوں سے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔کوئی ڈیڑھ سال پہلے انھوں نے مصر، سعودی عرب اور امارات کے انٹیلی جنس سربراہوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران تو شاید اب اتنا بڑا خطرہ نہیں لیکن مستقبل میں ترکی ہمارے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگا۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے میں شامل ہو کر اسرائیل کے ساتھ آئندہ معمول کے سفارتی تعلقات اور ایک نیا وسیع تر رشتہ قائم کر لے گا۔
واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ بات بدھ19 اگست کی رات وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔ صحافیوں کے ساتھ اس گفتگو میں امریکی صدر سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ عرب دنیا اور خلیجی خطے کی سب سے بڑی سیاسی طاقت سمجھا جانے والا سعودی عرب بھی آئندہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والے معاہدے میں شامل ہو جائے گا؟ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا جواب تھا، ”ہاں، میں پرامید ہوں‘‘۔
اسرائیلی اماراتی معاہدے کے لیے ثالثی امریکی صدر ٹرمپ نے ہی کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے مزید فلسطینی علاقے اپنے کچھ عرصہ پہلے تک کے ارادوں کے برعکس اپنے ریاستی علاقے میں شامل نہیں کرے گا۔
ساتھ ہی اس معاہدے میں علاقے کی ایک بڑی طاقت ایران کی مشترکہ مخالفت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اسرائیل، امریکا اور متحدہ عرب امارات ایران کو مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
جبکہ سعودی وزیر خارجہ نے کہاکہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ قیام امن کا تہیہ کیے ہوئے ہے، جس کی بنیاد عرب دنیا کی طرف سے 2002ء میں منظور کی جانے والی امن پیش رفت ہو گی۔دنیا کے کئی دیگر مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ابھی تک کوئی باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے کیونکہ ان ممالک نے اسرائیلی ریاست کو تاحال باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اسرائیل کے ساتھ اب تک صرف چار مسلم ممالک نے معاہدے کیے ہیں۔ یہ ممالک ترکی، مصر، اردن اور اب متحدہ عرب امارات ہیں۔
سعودی عرب نے آج سے 18 سال قبل کئی دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی پیش رفت تشکیل دی تھی، جسے ‘عرب امن پیش رفت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس دستاویز کی صورت میں عرب ممالک نے اسرائیل کو پیش کش کی تھی کہ اگر وہ ان علاقوں سے پوری طرح نکل جائے جن پر اس نے 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی اپنی ایک باقاعدہ ریاست بھی قائم ہو جائے، تو وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے پر تیار ہوں گے۔
DW.com/web desk